من کی بات نہ ہو تو متفقہ آوازوں کو بھی مودی حکومت دبا دیتی ہے

مودی حکومت ابھی تک غیر متفقہ آوازوں کو ہی دباتی رہی ہے لیکن ریزرویشن بل پر بحث کے دوران راجیہ سبھا میں کچھ مواقع ایسے آئے جب برسراقتدار طبقہ متفقہ آوازوں کو بھی دباتا ہوا نظر آیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تسلیم خان

بات من کی نہ ہو تو مرکز کی مودی حکومت اور اس کے وزیر ہی نہیں بی جے پی صدر تک غیر متفقہ آوازیں ہی نہیں متفقہ آوازوں کو بھی دباتے ہیں۔ ابھی تک یہ کام سرکاری ایجنسیوں کے ذرائع کا استعمال کر پچھلے دروازے سے کیا جاتا رہا ہے، لیکن بدھ کے روز یہ کوشش کھلے عام اور راجیہ سبھا کارروائی کے لائیو ٹیلی کاسٹ کے دوران کیا گیا۔ بدھ کو راجیہ سبھا میں مودی حکومت کے ذریعہ لائے گئے اعلیٰ ذات کو 10 فیصد ریزرویشن بل پر بحث ہو رہی تھی۔ اس بل پر ایوان بالا میں تقریباً 10 گھنٹے کی بحث ہوئی اور دیر شام ووٹنگ کرا کر اسے پاس بھی کرا لیا گیا۔ لیکن اس دوران راجیہ سبھا کچھ ایسے واقعات کی گواہ بنی جو غالباً پہلے کبھی پیش نہیں آئے۔

روایت ہے، اور ضابطہ بھی کہ جب حکومت کی طرف سے کوئی وزیر بل پیش کرتا ہے تو سبھی پارٹیوں کے اراکین کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا جاتا ہے اور ان کے بولنے کا وقت پارٹیوں کے اراکین کی تعداد پر ایوان کے سربراہ طے کرتے ہیں۔ بحث کے بعد آخر میں بل یا قرارداد پیش کرنے والے وزیر بحث کا جواب دیتے ہیں۔ اس دوران عام طور پر وزیر کئی اہم باتیں ایوان کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ بھی روایت رہی ہے کہ عام اراکین کے معینہ وقت سے زیادہ بولنے پر ایوان کے سربراہ اسے وقت کے لیے اور تقریر ختم کرنے کے لیے ٹوکتے بھی ہیں۔ لیکن ریزرویشن بل پر بحث کا جواب دیتے وزیر کو برسراقتدار طبقہ کے ذریعہ ٹوکنے کا واقعہ بدھ کو راجیہ سبھا میں پیش آیا۔ ساتھ ہی کئی بار ایسا موقع بھی آیا کہ ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے مودی حکومت کے وزیر برائے سماجی انصاف تھاور چند گہلوت کو ہی ٹوکنا شروع کر دیا اور ’پلیز کنکلوڈ‘ کہہ کر انھیں وقت کا دھیان دلایا۔

قابل ذکر ہے کہ راجیہ سبھا میں جس جگہ پر تھاور چند بیٹھے تھے اور کھڑے ہو کر بحث کا جواب دے رہے تھے، ان کے بغل میں وزیر قانون روی شنکر پرساد، بی جے پی صدر امت شاہ، وزیر برائے ہوابازی سریش پربھو بیٹھے تھے، تو ان کے پیچھے والی سیٹ پر وزیر ریل پیوش گویل، وزیر صحت جے پی نڈا اور فروغ انسانی وائل کے وزیر پرکاش جاوڈیکر بیٹھے تھے۔ بحث کے دوران یہ دیکھنا دلچسپ رہا کہ تھاور چند گہلوت اپنی بات پوری بھی نہیں کر پائے اور وزیر برائے قانون روی شنکر پرساد نے کئی بار انھیں ٹوکا کہ جلد اپنی بات پوری کریں۔ گہلوت نے اپنے جواب میں ایک بار جیسے ہی پنڈت نہرو کا نام لیا تو ان کا چہرہ بن گیا اور انھوں نے بی جے پی صدر امت شاہ کی طرف دیکھ کر پھر سے انھیں ٹوکا۔ اس دوران تھاور چند گہلوت تھوڑا سکپکائے بھی، لیکن انھوں نے بات جاری رکھی۔

گہلوت نے اس دوران کانگریس کے اراکین کے ذریعہ کہی گئی بات کا جواب دینا چاہا تو پیچھے بیٹھے پیوش گویل بے چین سے نظر آئے اور جھنجھلاہٹ میں میز پر ہاتھ پٹکنے سے لگے۔ انھوں نے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر امت شاہ کو دیا جس کے بعد پھر سے گہلوت کو روی شنکر نے تقریر ختم کرنے کے لیے کہا۔ اسی درمیان ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے پھر سے گہلوت کو تقریر ختم کرنے کے لیے ٹوک دیا۔

یہاں دھیان دینا ہوگا کہ گہلوت شیڈولڈ کاسٹ سے آتے ہیں اور اعلیٰ ذات پر ریزرویشن سے متعلق بحث کا جواب دے رہے تھے اور ان کے آس پاس بیٹھے مودی حکومت کے اعلیٰ ذات کے وزیر انھیں لگاتار ٹوک رہے تھے۔ اس کے علاوہ بھلے ہی گہلوت بل کی حمایت اور اسے پاس کرانے کی تجویز لا کر اس پر جواب دے رہے تھے، لیکن ان کی تقریر برسراقتدار طبقہ کے ’من کی بات‘ نہیں لگی تو ٹوکا ٹوکی شروع ہو گئی۔

اس سے قبل بحث کے دوران بی جے پی کے ہی رکن پربھات جھا نے بھی بل کی حمایت میں اپنی بات رکھی۔ لیکن جیسے ہی انھوں نے رافیل کا ایشو چھیڑا، ایوان میں بیٹھے وزیر مالیات ارون جیٹلی نے منھ بچکا کر امت شاہ کی طرف اشارہ کیا۔ امت شاہ کو بھی یہ ناگوار گزرا۔ اس کے بعد دونوں پربھات جھا کی طرف مڑے۔ جیٹلی اور شاہ کا رخ دیکھ کر پارلیمانی امور کے وزیر مملکت وجے گویل بھی میدان میں اترے اور دیکھتے دیکھتے پربھات جھا کو اپنی تقریر کا سمت بدلنا پڑا۔ لیکن ایک رکن ایسے بھی تھے جن کے لیے ڈپٹی چیئرمین نے مقرر کیا تھا کہ ایک منٹ کا وقت دیا جائے، لیکن جب وہ بولنے کے لیے کھڑے ہوئے تو بس بولتے ہی چلے گئے۔ چونکہ وہ برسراقتدار طبقہ کے من کو پسند آنے والی باتیں بول رہے تھے، اس لیے ان کے ایک منٹ کا وقت بڑھا دیا گیا۔ یہ رکن تھے راکیش سنہا جو نئے نئے راجیہ سبھا میں آئے ہیں اور آر ایس ایس سے ان کا قریبی رشتہ رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 Jan 2019, 1:09 PM