سائیکل کی چین چڑَھانے پر توجہ دیں، ورنہ کہیں کے نہیں رہیں گے... سید خرم رضا

موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ منموہن سنگھ کے مشورہ کو سمجھیں اور پہلے اعتراف کریں کہ سائیکل کی چین اتر گئی ہے اور پھر اس چین کو واپس چڑھانے کا عمل شروع کریں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

بچپن میں سائیکل چلانا سیکھنا اور سائیکل چلانے کی یادیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ ان کو ہم اپنے ذہن سے نکالنا بھی چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ہمارے زمانہ کی سائیکل میں سپورٹ کے لئے دو علیحدہ سے سائڈ کے پہیے نہیں ہوتے تھے کہ اگر کسی بھی جانب سائیکل جھکے تو اس جانب کا سپورٹ والا پہیا سائیکل کو گرنے سے بچالے اور اپنے اوپر سائیکل کا وزن لے لے۔ اس لئے اس وقت جو سائیکل ہوتی تھی اس کو سیکھنے کے دوران گرنا اور گھٹنوں کا چھلنا لازمی تھا کیونکہ اس وقت مین سپورٹ والے پہیے دونوں طرف نہیں ہوتے تھے۔ اس وقت سیکھنے کے دوران جہاں سائیکل کا بیلنس بنانا بہت اہم ہوتا تھا وہیں چین چڑھانا بھی کم اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ جہاں سائیکل کو دوڑانے کے الگ مزے ہوتے تھے، وہیں چین کا اتر جانا اتنا خراب تجربہ ہوتا تھا کہ کئی مرتبہ تو ایسا زبردست جھٹکا لگتا تھا کہ پورے جسم کو ہلا کر رکھ دیتا تھا۔ تیز چلانے میں جہاں سائیکل کا پیڈل بہت تیزی سے اوپر اور نیچے جاتا ہے، وہیں چین اترنے کی صورت میں لاکھ پیڈل گھوماتے رہیے سائیکل آگے نہیں بڑھتی۔ اس لئے جتنی جلدی اتر کر چین چڑھا لی جائے اتنا ہی اچھا ہوتا تھا۔

ملک کی معیشت بھی کچھ اسی سائیکل کی طرح ہی ہے، جس کی اگر چین نہ اترے تو چاہے جتنی تیز دوڑا لیں لیکن اگر چین اتر گئی تو پھر جھٹکا بھی لگتا ہے اور یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ سائیکل سے اتر کر پہلے چین چڑھالی جائے۔ اگر یہ دماغ میں ہو کہ چین اترنے کے باوجود بھی پیڈل کو گھومانے سے سائیکل چلتی رہے گی یا کوئی دھکا لگا دے گا اور آپ منزل پر پہنچ جائیں گے تو یہ خود کو بے وقوف بنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ سائیکل سوار کو فوراً یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ چین اتر گئی ہے اور پھر نیچے اتر کر چین چڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔


ہماری قیادت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہماری معیشت پرانے زمانہ کی سائیکل کی طرح ہے جس میں سائڈ کے پہیے نہیں ہوتے ہیں اور آج اس سائیکل کی چین بھی اتر گئی ہے۔ قیادت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے کہ معیشت کی چین اتر گئی ہے۔ حکومتِ وقت کو اس حقیقت کو تسلیم کر کے فوراً نیچے اتر کر چین چڑھانے کا عمل شروع کرنا چاہیے۔ سابق وزیر اعظم اور عالمی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات منموہن سنگھ نے ابھی ایک تقریب میں یہی کہا کہ حکومت جب تک نہیں مانے گی کہ پریشانی ہے تو حل کیسے نکالے گی، یعنی حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی معیشت کی سائیکل کی چین اتر گئی ہے۔

حکومت شائد یہ سوچ رہی ہے کہ چین چڑھانے کی ضرورت نہیں ہے اور دوسرے ممالک اور ان کے سرمایہ کار سائیکل کو دھکا لگا کر منزل تک پہنچا دیں گے، شائد دھکا لگوانے کے چکر میں ہی کوشش ہو رہی ہے کہ اتنی خراب معاشی صورتحال میں بھی امریکی صدر کے چند گھنٹوں کے پروگرام کے لئے کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے۔ حکومت کو یہ امید ہے کہ امریکی صدر ہماری سائیکل کو دھکا لگا کر منزل تک لے جائیں گے، لیکن امریکہ کی حقیقت سب کو معلوم ہے کہ اگر وہ کسی کو دھکا لگاتے ہیں تو وہ اسے گڈھے میں ڈھکیلنے کے لئے لگاتے ہیں اور اگر ان کو سائیکل پسند آ گئی تو وہ اپنے دھکے کے بدلے میں اس کی سائیکل ہی چھین لیتے ہیں۔


موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ منموہن سنگھ کے مشورہ کو سمجھیں اور پہلے اعتراف کریں کہ سائیکل کی چین اتر گئی ہے اور پھر اس چین کو واپس چڑھانے کا عمل شروع کریں باقی جو کوششیں وہ کر رہے ہیں وہ سب خود کو دھوکا دینے اور دوسروں کو اپنی سائیکل کا ہینڈل تھمانے جیسا ہے جس سے کوئی مستقل پائیدار حل نکلنے والا نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کے اندرونی ماحول کو بہتر بنائے، تاکہ پوری دنیا میں اس کو سرمایہ کاری کے لئے تسلیم کیا جا سکے۔ ملک بھر میں جو بے چینی جاری ہے اس کو ختم کرنے کے لئے اپنے مخالفین اور مظاہرین دونوں سے بات کرے تاکہ حکومت پوری توجہ سائیکل کی اتری چین کو چڑھانے پر لگا سکے۔ ایسا کرنے سے ہی معیشت نامی سائیکل دوبارہ دوڑ سکتی ہے اور اس کے بعد ہی نوجوانوں کی بے چینی دور ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی توجہ روزگار پر لگ جائے گی۔ مذہبی شدت پسندی اور مغرب پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ ملک کو کہیں نہیں لے جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Feb 2020, 8:11 PM