کہیں مذہب تو نہیں بن جائے گا سرکاری ہندوتوا!... مرنال پانڈے

اس اکثریت والی فتح سے اس بات کا اندیشہ بہت زیادہ بن جاتا ہے کہ تخت و تاج کے جھگڑوں کے درمیان بری طرح تقسیم ہو رہے اس ملک میں سرکاری ہندوتوا واقعی ایک مذہب نہ بن بیٹھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

مرنال پانڈے

ہندوستانی عوام نے اکثریت دے کر دوبارہ مودی حکومت کو ملک کا اقتدار سونپ دیا ہے جس کے بعد کچھ سوال پوچھے جانے لائق ہیں۔ ہندوستان جیسے متنوع ملک میں کسی بھی پارٹی کو دو دو بار واضح اکثریت ملنا کوئی عام واقعہ نہیں۔

  • کسی سیاسی پارٹی کے حق میں اس قدر بھاری اکثریت کس طرح بنتی ہے؟
  • کیا وہ ملک کی زیادہ تر عوام کے ذریعہ ٹھنڈے دماغ سے، اپنا برا بھلا سوچ کر کیا گیا فیصلہ ہوتا ہے؟ یا وہ کسی ایک کرشمائی لیڈر کے تئیں ایک جنون، اس کے دکھائے کسی رنگین خواب کی پیداوار ہے؟
  • یا پھر صدیوں سے ملک کے ذہن میں دفن بھوتوں کے اچانک بیدار ہو جانے سے اچانک آیا کوئی ایسی جذباتی آندھی ہے جو صدیوں ے دوران بنے اقصادی، سماجی اور سیاسی ترقی کے نقشے کو بنیاد سے مٹا دے گا؟

شاید ہم کبھی ٹھیک ٹھیک نہیں جان سکیں گے کہ مودی حکومت کی اس زبردست کامیابی (جو دراصل مودی کی انفرادی فتح زیادہ نظر آتی ہے) کے پیچھے کتنی دانشمندی تھی اور کتنا جنون۔ یا پھر بطور لیڈر نریندر مودی حالات کا لازمی نتیجہ ہیں کہ چالاکی سے تیار کردہ سراب۔ ایک ہی بات صاف ہے کہ مودی اگر ہندوستان کے ذہن کو گہرائی سے جھنجھوڑتے نہیں تو ان کے پارٹی کارکنان میں وہ گہری توانائی پیدا نہیں ہو سکتی تھی جس نے 2014 اور پھر 2019 کی کامیابی کو ممکن بنایا۔


کانگریس نے اس بار کا انتخاب نئے اور کم عمر صدر کی قیادت میں بہت برعکس حالات اور وسائل کی کمی کے درمیان (جن کو سامنے لانے میں بی جے پی قیادت کا تعاون بھی حاصل تھا) خم ٹھونک کر لڑا اور اپنی حالت گزشتہ انتخاب کے مقابلے میں بہتر بنا لی۔ اس کے لیے ان کو بھی کچھ شاباشی تو ملنی ہی چاہیے۔

ٹی وی اسٹوڈیو کے مہاپنڈتوں کے درمیان اس قسم کا افسوس ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ کانگریس قت پر اتحاد کرنے میں تذبذب والی حالت میں رہی۔ یہ بات غلط ہے۔ کانگریس کے ساتھ زیادہ پارٹیاں ہیں اور ان کی کارکردگی بی جے پی کی ساتھی پارٹیوں سے بہتر ہی کہی جائے گی۔ کچھ گمچھا دھاری سماجوادی مفکرین کی رائے تھی کہ غریب لوگوں کے درمیان مذہبی انقلابی طبقاتی جذبات مشتعل کر طبقاتی جدوجہد کے سائنسی اصول کانگریس نے اختیار کیے ہوتے تو اسے مزدور طبقہ کے ووٹ مل جاتے۔ ایسا کرنے والی کئی پارٹیوں کے نوجوان لیڈر بھی میدان میں تھے۔ لیکن تقریباً سبھی کھیت رہے کیونکہ جس طرح گورو باچھی جانتے ہیں کہ نمک کی چٹان جنگل میں کس جگہ ہے یا کہ کون سی جڑی بوٹی نہیں کھانی چاہیے، اسی طرح غریب ناخواندہ عوام بھی جانتی ہے کہ ملک کی سیاست میں لمبی ریس کا گھوڑا کون سا ہے۔


کانگریس کو اب اگلی اپوزیشن اننگ کے دوران ایک نئی پالیسی چاہیے۔ اسے پہلے یہ ماننا ہوگا کہ بی جے پی طرز کے ہندوتوا کے بغیر تو ملک کا کام چل سکتا ہے لیکن اس مذہب کے بغیر نہیں جو دراصل متھکوں کے مجموعہ پر مبنی ہندوستانی کٹورا اور صدیوں سے یہاں کی سرزمیں سے اپجے مشترکہ تجربات کا نچوڑ ہے۔ جب کانگریس ملک کے درمیان جا کر اس سہل اور سیکولر عنصر کو، جس کی مثال جائسی کی ویکنٹھی اور رینو کے میلا آنچل کے کردار ہیں، جمع کر اسے عوامی زبان میں سیاست کے محاورے میں ڈھالے گی، تبھی وہ ہندوستان کے ذاتیاتی ذہن سے خود کو اس طرح جوڑ سکے گی جیسا کہ گاندھی کے بعد اب تک کوئی نہیں کر پایا۔

اس اکثریت کی جیت سے اس بات کا پورا اندیشہ بنتا ہے کہ تخت و تاج کے جھگڑوں کے درمیان بری طرح تقسیم کیے جا رہے ملک سے کہیں اس تنوع کے امکانات ہی ختم کر سرکاری ہندوتوا سچ مچ ایک مذہب نہ بن بیٹھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 May 2019, 10:10 AM