اتر پردیش میں سہ رخی مقابلہ، کانگریس کی پوزیشن مستحکم، اکھلیش کو ہوگا سب سے زیادہ خسارہ

اترپردیش میں ہوئے گٹھ بندھن سے عملی طور سے سب سے زیادہ نقصان اکھلیش کو ہوا ہے، مایاوتی کی نیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اکھلیش کی 2 سیٹیں اور کم کرا دیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

پارلیمانی الیکشن کے سلسلہ میں چند ماہ قبل تک جو امید تھی کہ مودی جی کے خلاف حزب اختلاف کا ایک عظیم اتحاد کم سے کم اتر پردیش اور بہار میں بن جائے گا وہ خواب اب چکنا چور ہو چکا ہے، غیر بی جے پی سیاستدانوں میں مودی حکومت کے ذریعہ ملک میں لائی گی تباہ کاری خاص کر بے روزگاری، مہنگائی بنکوں میں لوٹ، سرکاری اداروں کی اندھا دھند نجکاری، آئینی اداروں کی تباہی اور سماج کی عدم رواداری اور فرقہ پرستی کے پھیلتے ناسور کے علاج سے زیادہ اپنا، اپنے خاندان اور اپنی پارٹی کا مفاد زیادہ عزیز ثابت ہو رہا ہے اور اس مرض سے کوئی بھی پارٹی خود کو پاک نہیں کہہ سکتی۔

مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی شکست اور کانگریس کی کامیابی نے ہندی پٹی کی سیاست میں ایک اہم تبدیلی پیدا کر دی ہے، بی جے پی کے ان تین اہم قلعوں کو فتح کرنے کے بعد کانگریس کارکنان اور رہنماؤں کے حوصلے جہاں بڑھ گئے ہیں وہیں غیر بی جے پی اپوزیشن خاص کر علاقائی پارٹیاں چوکننا ہوگئی ہیں، کیونکہ ان کا وجود ہی کانگریس کے دیرینہ ووٹ بنک خاص کر درج فہرست ذات و قبائل، مسلم اور برہمن ووٹوں پر قبضہ کرکے ہی اس مقام پر پہنچی ہیں، اگر کانگریس مضبوط ہوئی اور اس کا دیرینہ ووٹ بنک اس کی طرف واپس چلا گیا تو زیادہ تر علاقائی پارٹیوں کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔

اتر پردیش میں مایاوتی اور اکھلیش یادو کے درماین ہوا سیاسی گٹھ جوڑ بھی اسی لئے کانگریس کو الگ رکھ کر بنایا گیا ہے، ویسے بھی لوہیا وادی ملایم سنگھ یادو کی سیاست کا محور کانگریس کی مخالفت ہی رہا ہے، انہوں نے کبھی دوست بن کر تو کبھی مخالف بن کر کانگریس کو ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے، اکھلیش یادو سے یہ امید تھی کہ وہ قدیمی سیاست کو نظر انداز کر کے نئے سماجی اور سیاسی تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے ایک نیا سیاسی کلچر اختیار کریں گے، لیکن گزشتہ اسمبلی الیکشن میں کانگریس سے اتحاد کا فایدہ انہیں نہیں ہوا تھا اس لئے اس اتحاد میں کانگریس کو شامل نہ کرنے کی انہوں نے مایاوتی کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دئے۔

مایاوتی کی سیاسی ریاضی یہ ہے کہ اگر وہ کسی طرح 50 پارلیمانی سیٹوں پر قبضہ کرلیں تو معلق پارلیمنٹ میں ان کے وزیر اعظم بننے کے امکان کافی روشن ہو سکتے ہیں، حالانکہ ایک بڑا سوال یہ ہے کی اترپردیش کی 38 سیٹوں پر انتخاب لڑ کر وہ پارلیمنٹ کی 50 سیٹیں کہاں سے حاصل کر سکتی ہیں، لیکن یہ ہماری جمہوریت کی خوبصورتی بھی ہے اور اسکی بدنصیبی بھی، یہاں ایسے سیاسی معجزے ہو جانا کوئی انہونی بات نہیں ہے، جب شمال مشرق کی ایک ریاست میں محض 2 سیٹیں پا کر بی جے پی حکومت بنوا سکتی ہے تو 50 ہی کیا 20-25 سیٹیں پا کر بھی اگر مایاوتی وزیر اعظم بن جائیں تو کوئی حیرت نہیں ہوگی۔

مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں ان پارٹیوں سے سمجھوتہ نہ کرنے سے اکھلیش اور مایاوتی کا کانگریس سے ناراض ہونا فطری ہو سکتا ہے، ان کا یہ الزام بھی درست ہو سکتا ہے کہ کانگریس جہاں مضبوط ہے وہاں اتحاد کی فکر نہیں کرتی اور جہاں کمزور ہے وہاں اپنی طاقت سے زیادہ کا حصّہ مانگتی ہے، دوسری جانب کانگریس کا بھی یہ کہنا درست ہے کہ چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ان پارٹیوں کا خاص کر مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کا ووٹ بنک ہر الیکشن میں کم ہوتا رہا ہے ایسے میں جتنی سیٹیں وہ مانگ رہی تھیں اتنی ان کے لئے چھوڑ دینا بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہوتا، جس کا ثبوت یہ ہے کہ چھتیس گڑھ میں اجیت جوگی سے اتحاد کر نے کے باوجود دونوں مشترکہ طور سے صفر ہی رہے۔

اتر پردیش کی 80 پارلیمانی سیٹوں کو اکھلیش اور مایاوتی نے آپس میں تقسیم کر لیا ہے، امیٹھی اور رائے بریلی کی سیٹیں کانگریس کے لئے چھوڑنے کا فیصلہ کیا، تاکہ بی جے پی راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کو ان دو سیٹوں پر الجھائے نہ رکھے، دو اور سیٹیں شاید اجیت سنگھ اور ان کے بیٹے جینت چودھری کے لئے چھوڑ دی ہیں، حالانکہ ان سیٹوں کے ناموں کو واضح نہیں کیا۔

اکھلیش اور مایاوتی کے اس یکطرفہ فیصلہ سے کانگریس بھی بھڑک گئی اور اجیت سنگھ بھی- حالانکہ اجیت سنگھ نے ابھی اپنے پتہ نہیں کھولے ہیں لیکن کانگریس نے اتر پردیش کی سبھی 80 سیٹوں پر اکیلے لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، خبروں کے مطابق اجیت سنگھ نے کانگریس اور اکھلیش-مایاوتی سے رابطہ قایم کیا لیکن مایاوتی نے ان کے لئے مزید سیٹیں چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا۔ لیکن اکھلیش یادو نے اپنے کوٹے سے انھیں مزید دو سیٹیں دے کر اپنے اتحاد میں لوک دل کو بھی شامل کرلیا ہے۔ حالانکہ کانگریس کی طرف سے بھی انھیں مثبت اشارے ملے تھے لیکن اکھلیش نے اجیت سنگھ کو کانگریس کی طرف جانے سے روکنے کے لئے اپنی دو سیٹوں کی قربانی دے دی۔ دراصل اکھلیش کو یہ ڈر بھی ستا رہا ہے کہ اگر کانگریس نے ان کے چچا شیوپال سنگھ یادو اور اجیت سنگھ سے سمجھوتا کرلیا توانھیں مزید نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے، اس لیے انہوں نے اجیت سنگھ کو کانگریس کے پالے میں جانے سے روکا تاکہ شیو پال یادو کو اس کا براہ راست یا بالواسطہ فایدہ نہ مل سکے- ویسے اجیت سنگھ اگر بی جے پی کی گود میں چلے جاتے تو بھی کسی کو تعجب نہیں ہوتا، لیکن اندرونی خبروں کے مطابق جینت چودھری بی جے پی سے اتحاد کے سخت مخالف ہیں کیونکہ اس سے ان کے دادا آنجہانی چودھری چرن سنگھ کا دیرینہ مسلم-جاٹ سیاسی اتحاد بکھر جاتا ہے، جس کا خمیازہ پارٹی بھگت چکی ہے۔

اس طرح اس گٹھ بندھن سے عملی طور سے سب سے زیادہ نقصان اکھلیش کو ہوا ہے، مایاوتی کی خلوص نیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اکھلیش کی 2 سیٹیں اور کم کرا دیں، مگر اپنے کوٹے سے ایک بھی سیٹ دینے سے انکار کر دیا، آج حقیقی صورت حال یہ ہے کہ پرانی سماج وادی پارٹی کا 30 فیصد حصّه شیو پال یادو کے ساتھ جا چکا ہے، بچے 70 فیصدی میں سے 40 فیصدی مایاوتی لے گئیں، اب لے دے کے اکھلیش کے پاس 30 فیصدی پارٹی ووٹر اور کارکن بچے ہیں، 36 سیٹوں پر لڑ کر اکھلیش کتنی سیٹیں جیت سکیں گے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، جن جن حلقوں میں پارٹی کے مضبوط امیدوار کو تقسیم کی وجہ سے ٹکٹ نہیں ملے گا بہت مشکل ہے کہ وہ گٹھ بندھن کے امیدوار کو جتانے کے لئے اتنی ہی محنت کریں، اسی وجہ سے ایسے بہت سے طاقتوار امیدوار شیوپال یادو اور کانگریس کے رابطہ میں ہیں۔

اتر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر راج ببر اور پارٹی کے انچارج جنرل سکریٹری غلام نبی آزاد نے لکھنؤ میں کہا کہ پارٹی سبھی 80 سیٹوں پر پوری طاقت سے لڑنے کو تیار ہے، لیکن چھوٹی پارٹیوں کے لئے کچھ سیٹیں چھوڑنے پر غور کر سکتی ہے، ان کا اشارہ اجیت سنگھ کی لوک دل اور شیوپال یادو کی پارٹی کی طرف تھا لیکن اجیت سنگھ کا اکھلیش سے سمجھوتہ ہو جانے کے بعد لوک دل کا چیپٹر تو بند ہو گیا ہے۔ کانگریس کے اندرونی ذرائع کے مطابق اٹاوہ، مین پوری سمیت قریب پانچ سیٹیں شیو پال کے لئے چھوڑ سکتی ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یادو ووٹروں کا بٹوارہ یقینی ہیں کیونکہ شیوپال کا شروع سے ہی ان پرخاصہ اثر رہا ہے، دار اصل ملایم سنگھ کی طرف سے پارٹی کارکنان اور ووٹروں کا خیال شیو پال یادو ہی رکھتے تھے، شیوپال یادو ان سے براہ راست رابطہ رکھنے کے ساتھ ہر طریقہ سے ان کا خیال رکھتے تھے، یہ لوگ اب بھی شیو پال کے ہی وفادار ہیں، کیونکہ ملایم سنگھ بھی کھل کر شیوپال کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں۔

ادھر کانگریس نے بھی پورے دم خم سے میدان کار زار میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے اتر پردیش کی پوری مہم راہل گاندھی کے ارد گرد ہی گھومے گی ریاست بھر میں ان کی ایک درجن سے زائد بڑی ریلیاں کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس کا آغاز لکھنؤ سے ہوگا کانگریس کارکنوں میں بھی جوش ہے اور ووٹروں کا رجحان بھی اس بار کافی بدلا ہو دکھائی دے رہا ہے، ان کا صاف کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کی تشکیل کے لئے ووٹ دوسری طرح دیا جاتا ہے اور ریاستی حکومت کی تشکیل کے لئے دوسری طرح۔ ان ووٹروں کا صاف کہنا ہے کہ اس بار ہم کوئی خطرہ مول نہیں لیں گے کیونکہ ملک غیر یقینی سیاسی صورت حال کا متحمل نہیں ہو سکتا-

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔