جمہوریت کے ’مندر‘ سے نفرت کا پیغام!

نو منتخب ممبر پارلیمنٹ کو حلف دلایا جارہا تھا تب عوامی نمائندے ملک کی حفاظت اور ترقی کی قسم کھانے کے ساتھ ہی متنازعہ نعرے لگا کر ’انتہا پسندی‘ کا مظاہرہ کر کے صاف طور پر اقلیتوں کا ’مذاق‘ اڑا رہے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

آخرکار وطن عزیز کے جمہوری اقدار کی حفاظت کادعویٰ کرنے والے اورعوام کو حب الوطنی کا سبق پڑھانے والے ’عزتمآب‘ اتنے مایوس اور احساس کمتری کا شکار کیوں ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے جمہوریت کو علی الاعلان پیروں تلے کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر ان کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ 17ویں لوک سبھا کے اجلاس کے آغاز کے موقع پر پیر کو جب نو منتخب اراکین پارلیمنٹ کو لوک سبھا میں حلف دلایا جارہا تھا تب عوامی نمائندے ملک کی حفاظت اور ترقی کی قسم کھانے کے ساتھ ہی متنازعہ نعرے لگا کر ’انتہا پسندی‘ کا مظاہرہ کرکے صاف طور پر اقلیتوں کا ’مذاق‘ اڑا رہے تھے۔

سیاست کے مندر میں جہاں سماج کے ہر طبقے کے افراد موجود تھے وہاں متنازعہ مذہبی نعرے لگا کرحکمراں پارٹی اور اس کے حلیفوں نے دیگر پارٹیوں کے اراکین کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کیا مگر اس موقع پرمسلم اراکین پارلیمنٹ کی دانشمندی کی تعریف کی جائے گی جو انتہا پسندوں کی سازش کا شکار نہیں ہوئے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب خود وزیراعظم نریندر مودی ایک دن پہلے کہتے نظر آئے تھے کہ پارلیمنٹ میں بڑی تعداد میں نئے چہرے آئے ہیں تو ان کی نئی سوچ سے ہی نئے ہندوستان کی تعمیر ہوگی۔ مودی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ نیا ہندوستان نئی سوچ کے ساتھ بنے۔ مگر وزیراعظم نریندرمودی کی پارٹی کے ہی ممبران پارلیمنٹ نے ایوان زیریں میں ایسے کردار کا مظاہرہ کیا جس سے نئے ہندوستان کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔


لوک سبھا میں ہونا تویہ چاہیے تھا کہ نو منتخب عوامی نمائندوں سمیت سبھی اراکین بیک آواز یہ قسم کھاتے کہ اپنی مدت کارمیں نوجوانوں کو روزگار، خواتین کی حفاظت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کریں گے۔ مگرایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی جب حلف لینے کے لئے آئے تو بی جے پی ممبران پارلیمنٹ نے ’وندے ماترم‘ اور’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ حالانکہ اویسی ہمیشہ کی طرح زیادہ سمجھدار نکلے اور انہوں نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اور اونچی آواز میں یہ نعرے لگائے جائیں لیکن بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کو ’بھارت ماتا‘ تبھی کیوں یاد آئیں، جب اویسی حلف لینے کے لئے کھڑے ہوئے؟ کیا وہ انہیں اس نعرے سے مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے تھے؟ کیا وہ یہ پیغام دے رہے تھے کہ مسلم اراکین ’بھارت ماتا‘ سے چڑھتے ہیں؟ کیا اپنے عمل سے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’وندے ماترم‘ اور‘بھارت ماتا کی جے‘ سے اس ملک کے اقلیتوں کو پرہیز ہے؟

اویسی جب حلف لے رہے تھے تو وزیر اعظم مودی ایوان میں نہیں تھے، لیکن اگر ہوتے بھی تو کیا وہ اپنے ممبران پارلیمنٹ کو ایسی حرکت کرنے سے روکتے؟ کیا وہ انہیں یاد دلاتے کہ محض چند ہی دن پہلے انہوں نے لوک سبھا انتخابات میں جیت کے بعد بی جے پی کا نعرے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ میں ’سب کا وشواس‘ بھی جوڑا ہے؟ کیا بی جے پی دوسروں کو مشتبہ ثابت کر کے، دوسروں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کر کے ہی وشواس جیتنے میں بھروسہ کرتی ہے؟۔


بھگوا اراکین کی نعرے بازی کے درمیان اویسی نے بھی حلف لینے کے بعد نعرہ تکبیر بلند کیا اور ساتھ میں’جے ہند‘ بھی جوڑ دیا۔ اس طرح ان کی طرف سے حساب برابر ہو گیا۔ ’وندے ماترم‘ اور’بھارت ماتا کی جے‘ ایک طرف ہو گئے اور ’اللہ اکبر‘ اور ’جے ہند‘ دوسری طرف۔ آخر اویسی کو بھی یہ تقسیم شدہ سیاست اتنی ہی راس آتی ہے، جتنی سنگھ پریوار اور بی جے پی کو، دونوں کی سیاست اسی طرح چلتی ہے۔

اس کے کچھ دیر بعد حلف لینے آئیں ہیما مالنی نے ’رادھے-رادھے کرشنم وندے جگت گرو‘ کا نام لیا۔ ان سب کے ایک دن پہلے پرگیہ ٹھاکر نے سنسکرت میں حلف لیتے ہوئے اپنے باپ کا نام نہ لے کر اپنے گرو کا نام شامل کر لیا تھا جس پر اراکین نے اعتراض کیا اورعبوری اسپیکر کی ہدایت پر پرگیہ کو صحیح حلف لینا پڑا۔


ایک طرح سے دیکھیں تو یہ بہت بڑی باتیں نہیں ہیں، آپ انہیں نظر انداز کر سکتے ہیں۔ آخر اس ملک نے اظہار رائے کی جو آزادی دی ہے، اسی کا یہ بھی حصہ ہے کہ لوگ اپنے حلف میں باقی اقدار پر عمل کرتے ہوئے اپنے عقائد کا بھی اظہار کر سکیں۔ یہ تب تک ہے جب تک محض عقائد کے اظہار تک محدود ہو مگرجب کسی کو 'چڑھانے' یا مشتعل کرنے کی نیت سے نعرہ لگایا جائے تو اس سے جمہوریت کے مندر سے نفرت اورانتہا پسندی کو پیغام دینا سمجھا جائے گا۔

ہماری پارلیمنٹ کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس میں ملک کا تنوع جھلکتا ہے۔ طرح طرح کے لوگ طرح طرح کی پوشاکوں اور طرح طرح کے انداز سے پارلیمنٹ آتے ہیں، اپنی اپنی زبانوں میں حلف لیتے ہیں۔ حالانکہ اس میں بھی آہستہ آہستہ ہندی کے علاوہ انگریزی میں حلف لینے کا چلن بڑھتا گیا ہے۔ لیکن مسلم رکن کی حلف برداری پر جب آپ ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگانے شروع کرتے ہیں تومسلم رکن کا نہیں بلکہ ’بھارت ماتا کی توہین‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ ’وندے ماترم‘ سے ’بھارت ماتا‘ کو جوڑنا بھارت ماتا کو چھوٹا کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ’وندے ماترم‘ آزادی کی لڑائی کے دور میں اہم گیت رہا ہے لیکن ’وندے ماترم‘ کو لے کر ایک طبقہ اپنا اعتراض رکھتا رہا ہے۔ ’بھارت ماتا کی جے‘ کے ساتھ ایسا کوئی اعتراض نہیں ہے۔


افسوس کا مقام یہ ہے کہ بی جے پی لیڈروں کو یہ احساس بھی نہیں ہے کہ ان کی سیاست سب سے پہلے ان علامات کو چھوٹا بنا رہی ہے جو اس ملک میں سب کومنظور اورعام چلن میں رہے ہیں۔ رام سے کسی کو عداوت نہیں ہے لیکن ’جے شری رام‘ کا نعرہ جب ایک جارحانہ سیاست کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے تو رام اچانک دوسروں کو ڈرانے لگتے ہیں۔ ’بھارت ماتا‘ احترام کا موضوع ہے لیکن جب کسی لیڈر کے حلف لیتے وقت ایک ہتھیار کی طرح اس کا استعمال ہوتا ہے تو وہ شائد بے بس دیکھتی رہ جاتی ہوگی۔ حکمراں بی جے پی اور اس کے حلیف اپنے جمہوریت مخالف طرزعمل سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، اسے بتانے یا لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر ہم نے اپنی جمہوریت سے جوسبق سیکھا ہے وہ اقدارکی حفاظت ہے اور ہم ہمیشہ اسی سبق کو دہراتے رہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM