جمہوریت کے نام پر جمہوریت کو قتل کرنے کا خطرناک کھیل!

مودی سرکار نے بیشتر آئینوں پر دولت کی سیاہی پوت دی ہے تاکہ کچھ دکھائی نہ دے اور جن پر سیاہی نہیں پوتی جاسکی ہے انہیں توڑ دینے کی کوشش ہورہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

م. افضل

بظاہر اعلان تو نہیں ہوا ہے لیکن اس وقت ملک میں جو حالات ہیں اور جس طرح آزادیٔ اظہار اور سچ بولنے پر بالواسطہ طورپر پابندی لگائی جارہی ہے، وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ ملک میں غیر اعلانیہ طورپر ’ایمرجنسی‘ نافذ کردی گئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جولوگ سرکار کی ہمنوائی کررہے ہیں، انہیں نوازا جارہا ہے۔ لیکن جولوگ سرکار کو آئینہ دکھانے کا حوصلہ کرتے ہیں، انہیں طرح طرح سے پریشان اور اذیت کا شکار بنایا جارہا ہے۔ پچھلے دنوں اے بی پی نیوز سے جس طرح پنیہ پرسون باجپائی کی چھٹی ہوئی یہاں تک کہ ایڈیٹوریل ہیڈ سے بھی استعفیٰ لے لیاگیا، اور ایک دوسرے اینکر ابھیشارشرما کو طویل رخصت پر بھیج دیاگیا۔ وہ یہ باور کرانے اور بتانے کے لئے کافی ہے کہ موجودہ سرکار کے ارادے کتنے خطرناک ہیں اور ملک کس برے دور سے گزررہا ہے۔

’میڈیا پر یہ الزام تو بہت پہلے سے لگ رہا ہے کہ اس نے سرکار کے سامنے خودسپردگی کردی ہے اور جن لوگوں نے ایسا نہیں کیا ہے، انہیں حیلوں اور بہانوں سے پریشان ہی نہیں کیاجارہا ہے بلکہ کچھ ایسے گروپ بھی موجود ہیں جو ان لوگوں کو گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ ’رویش کمار‘ اس کا خلاصہ کرچکے ہیں کہ کس طرح سچ بولنے اور سچ دکھانے کے جرم میں لوگ سوشل میڈیا اور ان کے ذاتی فون نمبر پر انہیں گالیاں اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔ درحقیقت 2014 کے پارلیمانی الیکشن سے قبل ہی ’میڈیا‘ کو اپنی گرفت میں لینے کا منصوبہ تیار ہوا تھا۔ منصوبہ کامیاب بھی رہا، اس کے بعد ہی سے یوپی اے اور خاص طورپر کانگریس کے خلاف منفی رپورٹنگ کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ ’الیکٹرانک میڈیا‘ ہو یا ’پرنٹ میڈیا‘ ان دونوں پر کارپوریٹ گھرانوں کا قبضہ ہے۔ ان کارپوریٹ گھرانوں کا اصل کاروبار تو کچھ اور ہے، اپنے ’اصل کاروبار‘ کو بلاروک وٹوک آگے بڑھانے اور سیاسی پشت پناہی حاصل کرنے کی غرض سے ہی انہوں نے ’میڈیا‘ میں قدم رکھا مگر اب مودی سرکار کے آنے کے بعد ان کے لئے ’میڈیا‘ بھی ایک فائدہ مند کاروبار بن چکا ہے۔

ملک میں جو کچھ ہورہا ہے، ایسا نہیں ہے کہ لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔ ابتدا میں جب میڈیا کے بک جانے کی بات کہی جاتی تھی تو لوگ اس پر زیادہ یقین نہیں کرتے تھے لیکن اب ملک کی اکثریت کو اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ ’میڈیا‘ اپنا فرض ادا کرنے کی جگہ سرکار کی ہمنوائی اور قصیدہ خوانی کررہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ملک کے اقتدار پر قبضہ جمانے کے لئے آر ایس ایس کے نظریہ سازوں نے جو منصوبہ بندی کی اس میں اس بات کو سرفہرست رکھاگیا کہ ’میڈیا‘ کو کنٹرول میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ دہائیوں پہلے جرمنی میں ہٹلر نے بھی اپنے سیاسی مشیر کے کہنے پر یہی کیا تھااور تب وہاں کے اخبارات نے متحد ہوکر یہودیوں کے خلاف پروپیگنڈوں کی ایک طویل مہم چھیڑ دی تھی۔ ان پروپیگنڈوں کے اثر میں آکر ہی پوری جرمن قوم یہودیوں کے خون کی پیاسی ہوگئی تھی۔ بدقسمتی سے ’میڈیا‘ کو آڑ بناکر آج کچھ ایسا ہی کھیل ہمارے اپنے ملک میں کھیلا جارہا ہے اور اقلیتوں خاص طورپر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈوں کی ایک منصوبہ بند مہم شروع کردی گئی ہے۔

بات یہیں تک محدود نہیں ہے، سرکار یہ بھی چاہتی ہے کہ ’میڈیا‘ نہ تو سچ دکھائے اور نہ سچ بتائے۔ ان حالات میں اب مٹھی بھر لوگ ہی ’میڈیا‘ میں ایسے بچے ہیں جو سچ بولنے، سچ لکھنے اور سچ دکھانے کا حوصلہ کررہے ہیں۔ پنیہ پرسون باجپائی ان میں سے ایک ہیں۔ اے بی پی نیوز پر ’ماسٹر اسٹروک‘ کے عنوان سے وہ جو پروگرام پیش کرتے تھے اس میں سچ دکھا رہے تھے، یہ پروگرام عوام میں روزبروز مقبول ہوتا جارہا تھا، چنانچہ سرکار کے کان کھڑے ہوگئے اور پھر باجپائی کی نکیل کسنے کا عمل شروع ہوگیا۔ استعفیٰ کے بعد باجپائی نے جو طویل مضمون لکھا ہے، اس کی ابتدا میں وہ لکھتے ہیں کہ:

’’ کیا یہ ممکن ہے آپ وزیراعظم نریندرمودی کا نام نہ لیں؟ آپ چاہیں تو ان کے وزیروں کا نام لے لیں۔ سرکار کی پالیسی میں جو بھی گڑبڑی دکھانا چاہتے ہیں، دکھاسکتے ہیں۔ وزارت کے حساب سے وزیر کا نام لیں، لیکن وزیراعظم نریندرمودی کا ذکر کہیں نہ کریں۔‘‘

باجپائی کے بقول، اے بی پی نیوز چینل کے مالک سے جو ایڈیٹر ان چیف بھی ہیں، گزشتہ 4جولائی کو جب ان کی گفتگو ہوئی تو انہوں نے یہ جملے کہے۔ اپنے اس مضمون میں وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ایک لمبی گفتگو کے بعد یہ ہدایت سامنے آئی کہ وزیراعظم نریندرمودی کانام اب چینل کی اسکرین پر لینا ہی نہیں ہے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنے پروگرام ’’ماسٹراسٹروک‘‘ میں باجپائی جس طرح ایک ایک کرکے سرکار کے دعوؤں کی قلعی کھول رہے تھے، اس سے سرکار نہیں وزیراعظم مودی اور ان کے قریبی ساتھی بہت پریشان تھے اور جب ایک دن انہوں نے، کسانوں کی آمدنی میں دوگنا اضافہ کی قلعی بھی کھول دی، تو پانی سر سے اونچا ہوگیا۔ سرکار عرصہ سے یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وزیراعظم نریندرموی کے برسراقتدار آنے کے بعد کسانوں کی آمدنی میں دوگنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اسے ثابت بھی کرنا تھا چنانچہ اس کے لئے کسانوں سے ویڈیو کانفرنسنگ کا اہتمام کیاگیا۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ وزیراعظم نے کسانوں سے براہ راست گفتگو کی۔ اس عمل میں وزیراعظم نے چھتیس گڑھ کی ایک خاتون سے بھی گفتگو کی جس نے دعویٰ کیاکہ اب کھیتی سے اس کی آمدنی دوگنی ہوگئی ہے۔ باجپائی نے اپنے پروگرام میں اسی دعویٰ کی قلعی کھول دی تھی، باجپائی نے اس پروگرام کے ذریعہ بتایاکہ کس طرح پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کسانوں سے وزیراعظم کی گفتگو کااہتمام ہوا تھا، یہاں تک کہ کسانوں کو بتادیاگیا تھا کہ وزیراعظم کے پوچھنے پر انہیں کیا کہنا ہے۔ یہ حیرت انگیز انکشاف بھی سامنے آیا کہ اس کے لئے انہیں پیسے بھی دیئے گئے تھے۔

اس رپورٹ کے نشر ہونے کے بعد ایسا لگا جیسے کوئی سیاسی بھونچال آگیا۔ اپنے مضمون میں اس کی پوری تفصیل دینے کے بعد باجپائی لکھتے ہیں کہ اس رپورٹ سے گھبراکر مودی حکومت نے اے بی پی نیوز پر سیدھا حملہ یہ کہہ کر شروع کیاکہ جان بوجھ کر غلط اور جھوٹی رپورٹ دکھائی گئی اور باقاعدہ وزیر اطلاعات ونشریات سمیت تین مرکزی وزراء نے ایسے ٹوئٹ کیا اورچینل کی ساکھ پر ہی سوال کھڑے کردیئے۔ باجپائی یہ بھی لکھتے ہیں کہ حقائق کے ساتھ دوبارہ رپورٹ فائل کرنے کے لئے جب نامہ نگار کو دوبارہ بھیجا گیا تو وہاں کا منظر ہی بدلہ ہوا تھا، گاؤں میں پولس تعینات تھی۔ یہاں تک کہ افسران بھی وہاں تعینات کئے گئے تھے تاکہ نامہ نگار دوبارہ اس خاتون تک نہ پہنچ سکیں۔

اگرسرکار کا دعویٰ درست ہے تو اسے چینل اور خاص طورپر باجپائی کو چیلنج کرنا چاہئے تھا لیکن اس کی جگہ جو کچھ کیا گیا، کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ سرکار سچ چھپانے کی کوشش کررہی تھی؟ سچائی یہی ہے کہ یہ سرکار اب تک ایسا کچھ نہیں کرسکی ہے جس کو وہ اپنی حصولیابی کا نام دے سکے اور جس کے بارے میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہہ سکے کہ دیکھو ہم نے یہ کردکھایا۔ اس کی جگہ سرکار پروپیگنڈوں کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ رہی ہے۔ اعدادوشمار کے کھیل سے لوگوں کا دل بہلانے کی کوشش ہورہی ہے اور میڈیا کا ایک بڑا حلقہ اس میں سرکار کی معاونت کررہا ہے اور اگر کوئی ان دعوؤں پر سوال کھڑا کرنے کا حوصلہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جیسا کہ باجپائی کے ساتھ ہوا۔ ایسے میں ایک بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں ایسا ہونا چاہئے؟ اگر نہیں ہونا چاہئے تو دوسرے لوگ خاموش کیوں ہیں؟ ملک کوصریحاً ڈنڈے کے زور سے چلانے کی کوشش ہورہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ’’پارلیمنٹ‘‘ میں بھی سرکار کے لوگ سچ سننا اور سچ بولنا پسند نہیں کرتے۔

پچھلے دنوں عدم اعتماد تحریک کے دوران، کانگریس صدر راہل گاندھی نے وزیراعظم اور ان کی سرکار سے کچھ سوال پوچھے تھے۔ اگر سرکار کا یہ دعویٰ ہے کہ جوکام پچھلے 70برس میں نہیں ہوا، اس نے محض چاربرس کی مدت میں کردکھایا۔ ملک کی معیشت آگے بڑھ رہی ہے، اقتصادیات میں بہتری آرہی ہے اور اب تک جو منصوبہ لاگو کئے گئے سب کامیاب رہے ہیں تو سرکار کو راہل گاندھی کے سوالوں کا اعدادوشمار کے ساتھ جواب دینا چاہئے تھا مگر اس کی بجائے وزیراعظم نے جس مضحکہ خیز رویہ کا مظاہرہ کیا، اسے پورے ملک کے عوام نے دیکھا۔ 1975 کی ایمرجنسی کا رونا خوب رویا جاتا تھا لیکن اس دور کے عینی شاہدین یہ بتائیں گے کہ سچ کو دبانے کے لئے اس طرح کی آمریت کا مظاہرہ نہیں ہوا۔ ’میڈیا‘ اپنے ملک کا آئینہ ہوتا ہے اور اس کا کام ہی آئینہ دکھانا ہوتا ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ آئینہ سچ بولتا ہے، آپ کو یہ ویسا ہی دکھائے گا جیسا کہ آپ ہیں۔ مودی سرکار اس آئینہ میں اپنا چہرہ دکھاپانے کا حوصلہ نہیں کرپارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر آئینوں پر دولت کی سیاہی پوت دی گئی ہے تاکہ وہ کچھ نہ دکھاسکیں اور جن پر سیاہی نہیں پوتی جاسکی ہے انہیں توڑ دینے کی کوشش ہورہی ہے۔ جمہوریت کے چوتھے ستون کی بنیادوں کو کھوکھلا کیاجاچکا ہے اور یہ جمہوریت کے لئے بہت ہی خطرناک بات ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔