کورونا: حکومت اپنی ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتی... نواب علی اختر

ان حالات میں حکمرانوں کی خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے کہ اس وقت یہ ان کے ووٹ بینک نہیں ہیں، مگرسماج کے سرمایہ دار اور با رسوخ افراد کی بے رخی پوری انسانیت کو شرمسار کرتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

کورونا کے قہر سے بچنے کے لیے ہم سب کی زندگی گھر کی چہاردیواریوں میں قید ہو گئی ہے لیکن نیند کوسوں دور ہے۔ بیچینی اورچھٹپٹاہٹ دن کا چین اوررات کا آرام چھین لیا ہے۔ موجودہ حالات نے سب کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ بیرون ملک سے آئے لوگوں نے ملک کو بڑے بحران میں ڈال دیا ہے۔ ان کی لاپرواہی سب پر بھاری پڑے گی، اب بھی یہ لوگ سامنے نہیں آ رہے ہیں۔ ٹکٹ اٹینڈنٹ اور تھانیدار کتنے لوگوں کا پتہ لگا لے گا اور پکڑ لے گا۔ اس وقت تک بہت دیر ہو جائے گی۔ اس لئے ایسے لوگوں سے بار بار اپیل کی ضرورت ہے کہ انسانوں کی طرح پیش آئیں اور انسانیت کی حفاظت کریں۔

ملک کی موجودہ صورتحال نے غریب، امیر تو کیا سماج کے ہرطبقے کو پریشان کیا ہے۔ پہلے ’جنتا کرفیو‘ اور اس کے بعد 24 مارچ کو پورے ملک میں لاک ڈاؤن کے بعد ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں رہنے والے غریبوں اور یومیہ مزدوروں کو بھگوان بھروسے چھوڑ دیا گیا۔ سماج کے حاشیے پرزندگی گزار رہے یہ پسماندہ اور سہولیات سے محروم لوگوں کی قسمت ہر دن کما کر کھانے کی ہوتی ہے۔ یعنی یہ طبقہ جب دن میں مزدوری کرتا ہے تو رات میں اس کے گھر چولہا جلتا ہے۔ جس دن کام نہیں، اس دن کا کھانا مشکل سے ہی مل پاتا ہے۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کیا تو سب کچھ اچانک بند ہو گیا۔ اس لیے ان کا کام بند ہے اور وہ سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ بنیادی ضرورت پر پیسہ خرچ کرنے کے بعد شام کو گھر لوٹتے وقت ان کی جیب خالی ہوتی ہے۔


حکومت کے 21 روزہ ملک بندی کے بعد بھی حالات معمول پر آتے نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ ان تک اطلاعات سے پہلے افواہ پہنچ جاتی ہے، ٹرینیں اور بسیں بھی بند کر دی گئیں تاکہ کورونا نہ پھیلے۔ سڑک پر گزارا کرنے والے لوگوں کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا، کھانے کو کچھ نہیں ہے، کوئی مدد کرنے والے بھی نہیں ہیں۔ آنکھوں میں نا امیدی اور زندگی بھر کی کمائی پیٹھ پر لاد کر یہ لوگ ایک اندھے سرنگ میں لامتناہی سفر کی طرف نکل پڑے جہاں انہیں نہ تو کوئی مستقبل نظر آتا ہے نا زندگی کی کوئی روشنی۔ ایسے میں ان کو لگنے لگا کہ اب کسی بھی طرح اپنے گھر واپس چلے جائیں، مرنا ہوگا تو وہیں مریں، پردیس میں کیوں مریں جہاں پر کوئی کفن دفن کرنے والا بھی نہیں ہو گا۔

وبائی مرض کے شروعاتی دنوں میں حکومت کمبھ کرن کی نیند سوتی رہی، ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کئی مقامات پر ایسا بھی دیکھا گیا کہ پولیس ان لوگوں سے راستے میں کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کروا رہی ہے۔ دہلی سے نکلے یوپی اور بہار کے سینکڑوں لوگوں کو مشرقی یوپی کی طرف چھوٹے چھوٹے بچوں اور خواتین کے ساتھ پیدل چلتے دیکھ کر ہر کسی کا دل پسیج جائے گا۔ ممبئی میں تو سڑک پر پیدل اپنے گاؤں جاتے چار لوگوں کی موت ہو گئی اور پانچ زخمی بھی ہو گئے۔ جب یہ ساری تصاویر لوگوں کے سامنے آئیں تب کہیں جا کر حکومت کو ہوش آتا نظر آیا اور اپنی تحقیر سے بچنے کے لئے حکومتوں نے سینہ پیٹنا شروع کیا، کہیں کسی کے لئے ہیلپ لائن نمبر جاری کیے گئے تو کہیں پر کھانے پینے کا انتظام کرنے کی بات کہی جانے لگی، کہیں پر بس سے چھوڑنے کا انتظام کیا گیا۔ حکمران یہاں بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آئے۔


بی جے پی زیرحکمرانی پنجاب اور راجستھان کے وزیر کہتے نظر آئے کہ گجرات میں اور یوپی میں مزدوروں کا خیال رکھا جاتا تو وہ راجستھان اورپنجاب نہیں آتے۔ وہیں اترپردیش کی یوگی حکومت کے ایک وزیر نے کہا کہ دہلی میں مزدوروں کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ اس لیے ایسے حالات پیدا ہوئے۔ نام نہاد سماجی فاصلہ(سوشل ڈسٹینسنگ) کے نام پر سب نے ان سے دوری بنا لی۔ حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ان لوگوں نے بھی جن کا ایک دن کا گزارا ان کے بغیر نہیں ہو سکتا اور یہ سب کورونا وائرس انفیکشن کو روکنے کے لئے احتیاطی قدم کے طور پر کیا گیا۔ حکومت کو اس بات کا اندیشہ نہیں رہا ہوگا یا پھر صلاح کاروں نے معلومات نہیں دی ہوگی۔ اچھا ہوتا حکومت اتنی جلدی لاک ڈاؤن نہیں کرتی اور اگرلاک ڈاؤن کرنا ضروری ہوتا تو پہلے ان کے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کرتی۔

آپ کو اس بات کا اندازہ نہیں ہو گا کہ اگر بھیڑ میں ایک بھی آدمی کورونا سے متاثر پایا گیا تو پھر اس سے کتنے لوگوں تک یہ بیماری پہنچے گی، یہ سوچنے سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اسے روکنا حکومت کے بس کے باہر کی چیز ہو گی۔ اگر لاک ڈاؤن سے پہلے یہ اعلان کر دیتے کہ چار پانچ دن تک خصوصی ٹرین یا بس کے ذریعے لوگوں کو ان کے گھروں تک چھوڑا جائے گا تو پھر کورونا کے انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا تھا۔ اپنے گھر جانے کے لیے سڑک پرنکلے لاکھوں لوگ اگر کورونا سے بچ بھی جائیں تو ان کا دوسری بیماریوں سے بچ پانا ناممکن ہے۔ مزدور افراد کھانسی، سردی، ٹائیفائیڈ اور ملیریا جیسی کئی بیماریوں کے آسانی سے شکار بن جائیں گے کیونکہ ان کے ساتھ بچے، خواتین اور بزرگ بھی ہیں۔


اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے، تمام ریاستی حکومتیں اور مرکزی حکومت ایک کوآرڈینیشن ٹیم کے ذریعے اس آفت سے بہت مضبوط طریقے سے نمٹ سکتی ہیں۔ موجودہ بحران کو دیکھتے ہوئے ایک مرکزی عوامی نظام تقسیم کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اپنے گھروں کے لیے نکلنے والے مزدوروں کی مشکلات کو آسان بنا سکتی ہے۔ انہیں اس بات کا یقین دلایا جائے کہ یہاں ساری سہولیات دستیاب ہیں اور ان کے گاؤں کی طرف ہجرت انہیں مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ ان حالات میں حکمرانوں کی خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ان کے ووٹ بینک نہیں ہیں مگرسماج کے سرمایہ دار اور با رسوخ افراد کی بے رخی پوری انسانیت کو شرمسار کرتی ہے۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے، آگے بڑھ کر مدد کریں۔ حکومت بھی خاموشی توڑے اور لوگوں سے اپیل کرے کہ سڑک پر کوئی نظر آئے تو کھانا کھلائیں اور رہنے کی جگہ فراہم کریں۔ حکومت اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتی۔ حکومت سے چوک ہوئی ہے لیکن جان تو عوام کی جانی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Mar 2020, 7:45 PM