مودی جی، نوٹ بندی سے ملک ڈیجیٹل نہیں ہوا

آر بی آئی کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد پہلے سے زیادہ کیش بازار میں موجود ہے۔ گویا کہ نوٹ بندی کے ذریعہ ہندوستان کو ڈیجیٹل بنانے کی وزیر اعظم کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تسلیم خان

تاریخ 8 نومبر 2016، وقت رات 8 بجے۔ پورا ملک ٹی وی اسکرین پر نظریں گڑائے بیٹھا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں اور ملک کے نام پیغام دیتے ہیں۔ آغاز کے 15 منٹ وزیر اعظم ملک کی معیشت، کالے دھن، کالے دھن کا دہشت گردی میں استعمال، بدعنوانی، جعلی نوٹ، حوالہ اور بے نامی ملکیت کی بات کرتے ہیں۔ پھر وہ اعلان کرتے ہیں کہ ’’آج درمیان شب یعنی 8 نومبر 2016 کی رات 12 بجے سے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ لیگل ٹنڈر نہیں رہیں گے۔ یعنی یہ کرنسی قانوناً قابل قبول نہیں رہیں گی۔‘‘

یہ ایک ایسا بم تھا جس سے پورا ملک انگشت بدنداں تھا۔ لوگ بینکوں کی جانب دوڑ پڑے، پرانا پیسہ جمع کرانے اور چلن میں آئی نئی کرنسی گلابی رنگ کا 2000 روپے کا نوٹ حاصل کرنے۔ نقد پر چلنے والے کام دھندے بند ہونے لگے، بینکوں کی لائنوں میں کھڑے لوگوں کی موت کی خبریں آنے لگیں۔

اس نوٹ بندی کے اعلان کے بعد حکومت کی پوری مشینری، سارے وزیر، ساری افسر شاہی، ہر چھوٹا بڑا لیڈر حکومت کے اس قدم کو درست ٹھہرانے میں مصروف ہو گیا۔ موٹے طور پر جو دلیل دی گئی وہ یہ کہ اب ملک ’لیس کیش‘ اور ’کیش لیس‘ یعنی کم نقد بغیر نقدی والی معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے، سبھی ٹرانجیکشن یعنی لین دین الیکٹرانکلی ہوں گے۔ کارڈ، الیکٹرانک والیٹ، نیٹ بینکنگ وغیرہ سے لین دین پر کوئی روک نہیں ہوگی۔ دلیل دی گئی کہ زیادہ کیش چلن میں نہیں ہوگا تو دہشت گردی، بدعنوانی، جعلی نوٹ اور کالے دھن کا خاتمہ ہو جائے گا۔

جس وقت وزیر اعظم نے پورے ملک میں چلن میں موجود کل کرنسی یعنی نقد پیسے کے 86 فیصد سے زائد کو غیر قانونی قرار دیا، اس وقت ملک میں ہر قیمت کے نوٹ ملا کر کل نقد 17 لاکھ 10 ہزار کروڑ روپے تھا۔ لیکن حکومت اور وزیر اعظم کے ہر اعلان کی طرح ’لیس کیش‘ اور ’کیش لیس‘ معیشت کا نعرہ بھی جملہ ہی ثابت ہوا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے ملک میں چلن میں کل نقد یعنی کرنسی اِن سرکولیشن کے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں اس کے مطابق 16 فروری 2018 کو ملک میں 17.77 لاکھ کروڑ نقد چلن میں ہے یعنی اتنی رقم کی کرنسی سرکولیشن میں ہے۔ اتنا ہی نہیں آر بی آئی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال در سال کی بنیاد پر بھی نقدی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مودی جی، نوٹ بندی سے ملک ڈیجیٹل نہیں ہوا

آر بی آئی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال میں کرنسی اِن سرکولیشن میں 645960 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے 57.1 فیصد زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال اسی مدت میں سرکولیشن میں کل 492380 کروڑ روپے کی کمی تھی جو اس سے قبل موجود کرنسی سرکولیشن کا 30.3 فیصد تھی۔ اتنا ہی نہیں، فروری 2018 تک ریزرو بینک کے پاس بینکوں کے جمع میں بھی 5.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جو کل قیمت میں 482220 کروڑ روپے ہوتی ہے۔

مودی جی، نوٹ بندی سے ملک ڈیجیٹل نہیں ہوا

قابل غور ہے کہ 8 نومبر 2016 کو نوٹ بندی کےا علان کے بعد حکومت نے پرانے نوٹوں کو جمع کرانے کے لیے 50 دن کا وقت دیا تھا۔ اس کی میعاد 30 دسمبر 2016 کو ختم ہو گئی تھی۔ اس مدت کے ختم ہونے کے ایک ہفتہ بعد یعنی 6 جنوری 2017 کو ملک میں کل 8.11 لاکھ کروڑ روپے کی نقدی چلن میں تھی یعنی سرکولیشن میں تھی۔ لیکن اب یہی رقم یعنی کرنسی اِن سرکولیشن دوگنے سے زیادہ یعنی 17.77 لاکھ کروڑ ہو گئی ہے۔

نوٹ بندی کے بعد حکومت نے لیس کیش اور کیش لیس معیشت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے کروڑوں روپیہ اشتہارات، مباحثے اور چوپالوں پر خرچ کیے تھے۔ حکومت کا پورا زور الیکٹرانک لین دین پر تھا۔ ڈیجیٹل انڈیا کے نعرے گونج رہے تھے اور حکومت نے تو اسے باقاعدہ ’ڈیجی دھن‘ کا نام بھی دے دیا تھا۔

لیکن یہ سبھی نعرے، سبھی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ ریزرو بینک نے اپنے اعداد و شمار میں حکومت کی لیس کیش اور کیش لیس معیشت کے نشانے اور نعروں کی ہوا نکال دی ہے۔ اتنا ہی نہیں، کچھ ماہ پہلے ریزرو بینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پیش اعداد و شمار سے حکومت کے منھ پر طمانچہ مارا تھا۔ ان اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ نوٹ بندی کے اعلان کے بعد غیر قانونی قرار دیا گیا سارا پیسہ بینکوں میں واپس پہنچ گیا۔ حالانکہ ریزرو بینک نے ابھی تک اس کے آخری اعداد و شمار نہیں پیش کیے ہیں لیکن اس کی سالانہ رپورٹ میں غیر واضح تھا کہ ناقابل قبول کرنسی کا 99 فیصد بینکوں میں واپس آ چکا تھا۔

ریزرو بینک نے اپنی رپورٹ میں 30 جون 2017 تک کے اعداد و شمار شامل کیے تھے۔ رپورٹ میں صرف ایک فیصد نوٹ ہی واپس نہیں آنے کا تذکرہ تھا یعنی صرف 8900 کروڑ روپے کے نوٹ ہی واپس نہیں آئے۔ یہاں بتانا ضروری ہے کہ نومبر 2016 تک کل 17.74 لاکھ کروڑ روپے قیمت کے پرانے نوٹ سرکولیشن میں تھے۔ حکومت نے 8 نومبر 2016 کو کل 15.44 لاکھ کروڑ کے 1000 اور 500 کے نوٹ غیر قانونی یعنی غیر قانونی قرار دیے تھے۔ ریزرو بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بند کیے گئے نوٹوں میں سے 15.28 لاکھ کروڑ قیمت کے کرنسی نوٹ واپس آ چکے ہیں۔

ریزرو بینک کی سالانہ رپورٹ نے یہ بھی بتایا تھا کہ نوٹ بندی کے سبب مالی سال 17-2016 میں نوٹوں کی چھپائی کی لاگت میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ اس مالی سال میں نوٹوں کی چھپائی پر کل 7965 کروڑ روپے خرچ ہوئے، جب کہ اس سے قبل مالی سال 16-2015 میں نوٹوں کی اشاعت پر 3421 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔

نوٹ بندی پر ریزرو بینک کی سالانہ رپورٹ آنے کے بعد جیسے ہی ملک کو پتہ چلا کہ 500 اور 1000 روپے کی شکل میں سارا کا سارا نقد پیسہ بینکوں میں واپس پہنچ گیا تو نوٹ بندی سے متعلق حکومت کی منشا پر لعنتوں کا دور شروع ہو گیا تھا۔ چہار جانب سے تنقید اور خود کو کٹہرے میں کھڑا دیکھ کر وزیر مالیات ارون جیٹلی نے خود محاذ سنبھالا تھا اور اعلان کیا تھا کہ نوٹ بندی کا نشانہ ملک کو کیش لیس اور ڈیجیٹل معیشت کی طرف لے جانا تھا، اور وہ مقصد پورا ہوا ہے۔

وزیر مالیات کے اس بیان سے ملک کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نوٹ بندی کے بعد عام لوگوں، غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کو ہو رہی دقتوں کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اپنا بیان ہی بدل لیا تھا۔ کالے دھن، بدعنوانی اور دہشت گردی پر نکیل کے نام پر شروع ہوئی نوٹ بندی سے مچے ہنگامہ کے درمیان جب ملک آہ و بکا کر رہا تھا تو مودی حکومت کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے اوربلاتاخیر حکومت کے سپہ سالاروں اور وزیروں نے آناً فاناً ایک قصہ تیار کر لیا تھا کہ نوٹ بندی کا اصل مقصد تو ملک میں نقد لین دین کو ختم کر کے کیش لیس معیشت بنانا ہے۔

یوں بھی الیکٹرانک پیمنٹ مہیا کرانے والی کمپنیوں نے بڑے اخباروں کے مہنگے صفحات پر بڑے بڑے اشتہارات شائع کر جس طرح وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا تھا اس سے دال میں کچھ کالا ہونے پر بحث بھی شروع ہو گئی تھی۔ وزیر اعظم نے نوٹ بندی کے بعد حالات معمول پر آنے کے لیے 50 دن کا وقت طلب کیا تھا لیکن نوٹ بندی کے 8 مہینے بعد بھی ملک کے کئی حصوں میں نقد کی دقت برقرار تھی۔

جو نئی کہانی تیار کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ نوٹ بندی کا فیصلہ ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینا ہے۔ کہانی میں اس نئی ٹوئسٹ کے ساتھ ہی ملک میں ڈیجیٹل لین دین کو فروغ دینے والے اشتہارات کی سنامی سی آ گئی تھی۔ لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنے کے لیے ’ڈیجی دھن‘ میلے لگائے گئے، لکی ڈرا نکالے گئے۔ افسران اور وزرا نے بڑے بڑے دعوے کیے کہ ملک نقدی معیشت سے ڈیجیٹل معیشت میں چھلانگ لگا چکا ہے اور سرکولیشن میں جتنا بھی پیسہ ہے وہ کافی ہے۔

نیتی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’2020 تک اے ٹی ایم، کریڈٹ کارڈ اور سوائپنگ مشینیں بے کار ہو جائیں گی، کیونکہ آنے والے دنوں میں ہر ہندوستانی صرف انگوٹھے کی چھاپ سے سیکنڈوں میں لین دین کر لے گا۔‘‘ وزیر اعظم نے بھی مارچ مہینے کی ’من کی بات‘ میں لوگوں سے کہا کہ کھل کر ڈیجیٹل لین دین کریں جس سے ایک سال کا نشانہ نصف سال میں ہی پورا ہو جائے۔

لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ڈیجیٹل لین دین، لیس کیش اور کیش لیس، یہ سب کچھ ایک جملہ ہی ثابت ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Feb 2018, 8:06 PM