یہ بجٹ نہ انتخابی ہے نہ ہی ترقیاتی، یہ تو خوفزدہ اور گھبرائی حکومت کا قبول نامہ ہے

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت نے اس بجٹ میں نہ تو ملک کی شرح ترقی بڑھانے کا کوئی راستہ بتایا اور نہ ہی کمائی بڑھانے کا۔ لیکن آخر ایک خوفزدہ حکومت سے امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔

گرافکس قومی آواز
گرافکس قومی آواز
user

تسلیم خان

موجودہ مودی حکومت کا آخری بجٹ امید کے مطابق 2 فروری کے سبھی اخبارات کی سرخیاں بنی۔ بجٹ سے متعلق خبریں پیش کرنے سے متعلق ہر اخبار کا اپنا نظریہ ہے، اپنا طریقہ ہے۔ لیکن ملک کے چار بڑے بزنس نیوز پیپر کی سوچ اس بجٹ سے متعلق یکساں نظر آئی۔ ’بزنس اسٹینڈرڈ‘، ’اکونومک ٹائمز‘، ’مِنٹ‘ اور ’دی ہندو‘ بزنس لائن کے صفحہ اول کی شہ سرخی ایک ہی اشارہ کر رہی ہے کہ یہ انتخابی بجٹ ہے۔

انتخابی سال میں عبوری بجٹ کو لبھاؤنا بنانے کی سابقہ حکومتیں بھی کوشش کرتی رہی ہیں اور مودی حکومت نے بھی تو یہی کیا ہے۔ انتخابات کو دھیان میں رکھتے ہوئے حکومت نے پوری توجہ کسانوں اور متوسط طبقہ پر لگا دی۔ اسی پر بحث بھی ہو رہی ہے۔ لیکن کیا یہ صرف انتخابات سے قبل کی سوغاتیں ہیں یا کچھ اور، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حکومت نے جو بھی تحائف دینے کا اعلان کیا ہے اس کے لیے پیسے کہاں سے حاصل کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں کوئی روڈ میپ نہیں بتایا گیا ہے۔ اکونومک ڈسپلن کا ڈھنڈورا پیٹنے اور شفافیت کا نعرہ لگانے والی یہ حکومت دونوں ہی محاذ پر اپنی قبر کھودتی رہی ہے۔ تو کیا بجٹ کے اعلانات کو صرف نعرہ یا اپوزیشن پارٹی کی زبان میں ’جملہ‘ ہی تصور کر لیا جائے!

نعرے اور جملے تو 2014 میں بھی بہت سارے سامنے آئے تھے، لیکن اس وقت تک نہ تو بی جے پی اور نہ ہی وزیر اعظم مودی کسی کسوٹی سے ہو کر گزرے تھے۔ عالمی اور کچھ گھریلو سیاسی اسباب سے ڈانواڈول معیشت کے دور میں بی جے پی اور مودی نے جو وعدے کیے تھے، انھیں لوگوں نے سچ مان لیا تھا۔ لیکن حکومت کے پانچ سال بعد آج حالات مختلف ہیں۔ حکومت کو اپنا رپورٹ کارڈ سامنے رکھنا ہے اور 2014 کے نعروں-وعدوں سے اس کا موازنہ ہو رہا ہے۔

یہی سبب ہے کہ اس بجٹ کو انتخابی بجٹ کی جگہ مودی حکومت کے خوف کا بجٹ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ حکومت نے اس عبوری بجٹ میں جو دو بڑے اعلانات کیے ہیں وہ کسانوں اور متوسط طبقہ پر مرکوز ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو حکومت کو سب سے زیادہ ڈرا رہا ہے۔ اس ڈر کو دور بھگانے کے لیے حکومت نے 17 روپے کا ٹوٹکا کیا ہے۔ کسانوں کو بھی 17 روپے روزانہ اور متوسط طبقہ کو بھی 17 روپے روزانہ کی اضافی آمدنی کا طریقہ حکومت نے سامنے رکھا ہے۔ ان میں سے بھی ایک ٹوٹکا فوراً شروع ہو جائے گا یعنی کسانوں کو اسی سال سے 6000 روپے سالانہ ملنے والے پیسے کی پہلی قسط دے دی جائے گی، اور متوسط طبقہ کو ابھی اس کے لیے انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کا انتظار کرنا ہوگا۔ ان دو بڑے خوف کے علاوہ ایک اور خوف حکومت کو ستا رہا ہے، وہ ہے سبھی طبقات سے الگ ہوئے مذہبی ووٹ بینک۔ اس خوف کے لیے حکومت نے ’کام دھینو یوجنا‘ نافذ کر گئوماتا کی پوجا کرنے والے بڑے طبقہ کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔

مودی حکومت کے گزشتہ سالوں میں کم از کم پانچ بڑی کسان تحریک دیکھنے کو ملیں۔ مہاراشٹر، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، اتر پردیش-اتراکھنڈ، آندھرا پردیش اور دیگر ریاستوں کو کسانوں کی ناراضگی، بڑی تحریکوں اور کسان یاتراؤں اور مظاہروں کی شکل میں سامنے آتی رہیں۔ مہاراشٹر میں کسانوں کا منظم مارچ، دہلی میں زبردست مظاہرہ، دہلی-یو پی سرحد پر کسانوں کا جماؤڑا، مدھیہ پردیش کے مندسور میں کسانوں پر فائرنگ، تمل ناڈو کے کسانوں کا نیم عریاں جسم کے ساتھ دہلی میں دھرنا، آندھرا-تلنگانہ کسانوں کا اپنے حق میں مطالبہ کرنا وغیرہ ایسی مثالیں ہیں جنھوں نے حکومت کے ذہن میں خوف پیدا کر دیا۔ بھلے ہی حکومت اس کا اعتراف نہ کرے، لیکن حال ہی میں تین ہندی بیلٹ ریاستوں میں کسانوں کی ناراضگی کا خمیازہ جس طرح بی جے پی کو بھگتنا پڑا اور اسے اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا، وہ بہت کچھ ظاہر کر دیتا ہے۔

حالانکہ بغیر قلمدان کے وزیر اور سابق وزیر مالیات ارون جیٹلی نے بجٹ کے بعد نیو یارک میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پانچ سال میں کوئی ’سوشل انریسٹ‘ نہیں ہوا۔ لیکن کسانوں کی ان بڑی تحریکوں کو نظر انداز کرنے کے پیچھے قانون کی پڑھائی کر وکالت کرتے رہے اور صرف یونیورسٹی انتخاب کے کوئی بھی انتخاب نہ جیتنے والے ارون جیٹلی کا غرور ہی ہے۔

یہاں ہمیں دھیان رکھنا ہوگا کہ ارون جیٹلی نے ہی گزشتہ بجٹ تقریروں میں کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بجٹ کے بعد ٹی وی مباحثوں میں بیٹھے ’سوراج انڈیا‘ کے لیڈر یوگیندر یادو نے جب مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان سے انکساری کے ساتھ گزارش کی کہ وہ صرف یہ بتا دیں کہ کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا ہدف کتنا فیصد حاصل کیا جا چکا ہے، تو اس کے جواب میں مودی حکومت کے وزیر نے یوگیندر یادو کو ’چائے پہ چرچا‘ کی دعوت دے دی۔

کسانوں کی ناراضگی کا خوف ہی ہے جو مودی حکومت معاشی حالت خراب ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح انھیں خوش کرنے کے ٹوٹکے کرنے میں کوشاں نظر آ رہی ہے۔ مودی حکومت کو دوسرا خوف متوسط طبقہ سے ہے جو عموماً شہروں میں رہتا ہے، ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتا ہے، سارے قوانین و ضوابط پر عمل کرتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد اگر کسی طبقہ کو سب سے زیادہ تکلیفوں سے سامنا کرنا پڑا ہے تو وہ یہی طبقہ ہے۔ اس حکومت نے سب سے زیادہ اسی طبقہ کو پریشان کیا ہے۔ سب سے بڑی چپت تو پٹرول-ڈیزل کے نام پر اس حکومت نے لگائی جب تین سال میں تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے اس طبقہ سے ایکسائز کے نام پر چھین لیے گئے۔ متوسط طبقہ نے اپنی ناراضگی لوک سبھا سیٹوں کے ضمنی انتخابات اور تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں ظاہر کی۔ ایسے میں مودی حکومت اس طبقہ کو بھی خوش کرنے کی کوشش میں لگی ہے۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت نے اس بجٹ میں نہ تو ملک کی شرح ترقی بڑھانے کا کوئی راستہ بتایا اور نہ ہی کمائی بڑھانے کا۔ لیکن آخر ایک خوفزدہ حکومت سے امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔