بہار میں ’بی جے پی‘ کا گھمنڈ چکناچور

بی جے پی کی ڈگمگاتی کشتی سے خود کو بچانے کے لئے تمام اتحادی اپنی اپنی زمین محفوظ کرنے میں لگے ہیں، اس لئے جیسے چاہتے ہیں بی جے پی کو جُھکا رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

2014 کے مقابلے 2019 کے عام انتخابات نے جہاں کئی نوجوانوں کو سیاست میں آنے کے لئے متاثر کیا ہے وہیں کئی بڑے بڑے ’کھلاڑیوں‘ کے دانت کھٹے کردیئے ہیں۔ مرکزی اقتدار پر قابض بی جے پی کے لیڈر تو کرسی پانے کے بعد اپنے سامنے یا برابر میں کسی کو بیٹھنا یا بٹھانا تک گوارا نہیں کرتے تھے مگر آج ملک کا ماحول بدل گیا ہے اور اس بدلے ہوئے سیاسی منظرنامے میں اپنا وجود قائم رکھنے کے لئے حکمراں طبقہ کے لوگ اب وہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں، جس کو اس سے پہلے وہ حقارت بھری نظروں سے دیکھتے تھے اور ایسا کرنے پر اپنی توہین سمجھتے تھے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں جن سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 5 سالوں میں ہی بی جے پی کی زمین کھسکنے لگی ہے اور کسی بھی طرح اسے بچانے کے لئے وہ مہاراشٹر میں شیوسینا کا دامن بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے جو ہمیشہ وزیراعظم مودی اور ان کی بی جے پی کو بے نقاب کرنے کا کام کرتی رہی ہے۔ اسی طرح اترپردیش میں اپنادل جیسی چھوٹی پارٹی کے سامنے بھی خودسپردگی کرنے میں شرم محسوس نہیں کی، جس نے مرکز کی بی جے پی حکومت کے ساتھ ہی اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی ناک میں د م کر رکھا ہے۔ وہیں دوسری طرف بہار میں بی جے پی نے جے ڈی یو کے سامنے جس طرح ہاتھ جوڑے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔

بہار میں بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) اپنےاتحادی جنتادل یونائٹیڈ (جے ڈی یو) اورلوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) سے قدم قدم پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہے۔ ریاست کی 40 لوک سبھاسیٹوں میں سے جن سیٹوں پرقومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کے یہ تینوں اتحادی الیکشن لڑیں گے ان کی فہرست سے بھی بی جے پی کی مجبوری صاف جھلک رہی ہے۔ یعنی ریاست کے وزیراعلیٰ اور جے ڈی یو کے صدر نتیش کمار نے سیٹوں کے انتخاب میں اپنے سیاسی مفاد کے مطابق بی جے پی قیادت کو جیسے چاہا ویسے جھکنے پر مجبور کردیا۔ بہار میں برابر برابر(17-17) سیٹوں کی حصہ داری قبول کرکے بی جے پی نے اپنی جیتی ہوئی پانچ سیٹیں جے ڈی یو کے لئے پہلے ہی چھوڑدی تھیں، اب یہ سامنے آیا ہے کہ پارلیمانی حلقہ منتخب کرنے میں بھی جے ڈی یو کو ترجیح دینے کے لئے بی جے پی نے اپنے حق یا دعوے پوری طرح ڈھیلے کر دیئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انتخابی سیاست میں ایسا وہی کرتا ہے جس کو اپنے کمزور یا کم ہوتی مقبولیت کا احساس ہوجائے اورایسی صورت میں اتحادی پارٹی کے آگے جھکنا اس کی مجبوری ہوجائے۔

بی جے پی کے اثر والے بھاگلپور پارلیمانی حلقہ کی مثال سامنے ہے۔ وہاں سابق رکن پارلیمنٹ شاہنوازحسین کی امیدواری کو درکنار کر دیا گیا اور جے ڈی یو کے لئے یہ سیٹ چھوڑ دی گئی۔ اسی طرح گری راج سنگھ کی جیتی ہوئی نوادہ لوک سبھا سیٹ ان سے چھین کر ایل جے پی کی جھولی میں ڈال دی گئی۔ والمیکی نگر، سیوان، گوپال گنج، جھنجھارپور اور گیا لوک سبھا سیٹوں پر گزشتہ انتخابات میں جیت حاصل کرنے والی بی جے پی اس بار وہاں سے ہٹ گئی ہے اور اس نے جے ڈی یو کو ان پانچوں سیٹوں کی امیدواری سونپ دی۔ اس ’فراخدلی‘ کو مجبوری ماننے والوں کے مطابق اس بار سال 2014 جیسی عوامی حمایت ناممکن سمجھ کر بی جے پی نے اتحاد میں اکڑ کر نہیں، جُھک کر کام چلانے کی حکمت عملی اپنائی ہے لیکن ایسی حکمت عملی کا خطرہ بھی اب نظرآنے لگا ہے۔ پارٹی کے جو لیڈر اس سے متاثر ہوئے ہیں، ان کی ناراضگی اب بغاوت یا داخلی خلفشار کی شکل میں کئی سیٹوں پر پارٹی امیدواروں کے لئے مشکلیں پیدا کرسکتی ہے۔ ویسے انتخابی ٹکٹ کے لئے پارٹی بدلنا کوئی نئی بات یا بڑی بات نہیں سمجھی جاتی ہے، پھر بھی بہار میں اس بار بی جے پی کے سامنے یہ مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔

ایسااس لئے کیونکہ جے ڈی یو کے لئے بی جے پی نے اپنے اثر والے کئی ایسے پارلیمانی حلقے چھوڑ دیئے ہیں جہاں ردعمل کے طور پر این ڈی اے مخالفت پارٹیوں کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔ بہارمیں این ڈی اے کی انتخابی تیاری اور ہلچل پرغور کریں تو یہ صاف نظرآتا ہے کہ نتیش کمار کی قیادت میں جے ڈی یو آگے آگے اور بی جے پی پیچھے پیچھے چل رہی ہے۔ یہاں این ڈی اے کے لئے سیٹوں کے انتخاب میں جے ڈی یو کو بڑے بھائی کا رول ادا کرتے دیکھا گیا اور اس سلسلے میں فہرست بھی جے ڈی یو آفس سے ہی جاری ہوئی۔ جب کہ بی جے پی ہمیشہ اور ہرجگہ خود بڑے بھائی کے رول میں رہنے کے لیے اتحادیوں کومجبور کرتی تھی مگرتازہ واقعات نے پارٹی کو احساس کرا دیا ہے کہ کرکٹ اور سیاست میں کبھی کوئی مستقل فیصلہ یا مزاج کام نہیں کرتا، سارا دارومدار ماحول پرمنحصر ہوتا ہے اور یہی موجودہ سیاسی حالات میں ہو رہا ہے۔ بی جے پی کی ڈگمگاتی کشتی سے خود کوبچانے کے لئے تمام اتحادی اپنی اپنی زمین محفوظ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس لئے جیسے چاہتے ہیں بی جے پی کوجُھکا رہے ہیں۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ جے ڈی یوجو کل تک بی جے پی کے ہاتھ کے نیچے رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی تھی وہ آج خود بی جے پی کی ’مائی باپ‘ بن چکی ہے کیونکہ بہار میں جے ڈی یو اپنے لئے اپنے من پسند پارلیمانی حلقوں کے انتخاب میں بی جے پی کو خاموش کر دینے میں کامیاب رہی۔

سیٹوں کی تقسیم میں اپنی پارٹی کو بی جے پی کے برابر کھڑی کرکے اب نتیش کمار انتخابی کامیابی میں سبقت حاصل کرنے کے لئے بیتاب دکھائی دے رہے ہیں اس لئے زیادہ تر لوگ اس میں بی جے پی کے لئے آگے خطرے کے اشارے کر رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف آر جے ڈی اور کانگریس سمیت 6 پارٹیوں کے ’مہاگٹھ بندھن‘ میں سیٹ تقسیم کا معمہ این ڈی اے خیمے کو پریشان کر رہا ہے۔ ایسے میں سوال کیا جا رہا ہے کہ پلوامہ کے دہشت گردانہ حملے اور بالاکوٹ ایئراسٹرائیک پر اپنی پیٹھ خود تھپتھپانے والی بی جے پی جوصرف اپنے حق میں عوامی حمایت محسوس کر رہی تھی وہ اب بھی اپنے اتحادیوں کے آگے اس قدر جھکنے پر کیوں مجبور ہے؟۔ ویسے وقت کے ساتھ ہی ان دونوں واقعات کا عوام پر چھایا ہوا گہرا اثر دھیرے دھیرے ختم ہو رہا ہے اور حزب اختلاف کی جانب سے ہندوستانی فوج کے کارنامے پر سیاست کرنے والوں کو بے نقاب کرکے جس طرح جوانوں کی کارکردگی کو سامنے لانے کا کام کیا گیا ہے اس سے اب عوام بھی واقف ہوچکی ہے اسی لئے جو لوگ بھی فوجی جوانوں کی بہادری پر سیاست کر رہے تھے ان کی حکمت عملی پوری طرح ناکام ہوتی نظر آرہی ہے اور اس کا احساس ہوتے ہی انہوں نے انتخابات کے لئے نئی چیزیں تلاش کرنی شروع کردی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Mar 2019, 4:09 PM
/* */