اُس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا..سہیل انجم

امت شاہ نے پچاس سال تک حکومت کرنے والا بیان دیا تو کہا کہ انہوں نے یہ بات تکبر میں نہیں کہی لیکن سچ یہ ہے کہ ان کا غرور ہی ان سے ایسے بیانات دلوا رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

سال 2019 جوں جوں قریب آرہا ہے بی جے پی رہنماؤں کی زبان درازیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اصل اپوزیشن جماعت کانگریس اور بالخصوص اس کے صدر راہل گاندھی پر ہتک آمیز حملے بھی تیز ہو گئے ہیں۔ یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 2019 میں بی جے پی ہی جیتے گی کیونکہ بقول ان کے حزب اختلاف کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے اور وہ سب کرپٹ ہیں۔ بات یہیں تک محدود ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی۔ کیونکہ عام طور پر انتخابات سے قبل ایسے خود فریبی والے دعوے کیے ہی جاتے ہیں۔ لیکن معاملہ اس سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ بی جے پی صدر امت شاہ یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ کوئی بھی طاقت آئندہ پچاس برسوں تک بی جے پی کو اقتدار سے باہر نہیں کر سکتی۔

ان دعووں کو سن اور پڑھ کر 2004 میں ہونے والے پارلیمانی یانتخابات یاد آجاتے ہیں جب واجپئی کی حکومت نے شائننگ انڈیا کا نعرہ دیا تھا اور تمام سیاسی پنڈت بی جے پی کی جیت کے دعوے کر رہے تھے۔حالانکہ اگر بغور دیکھیں تو اِس بار بی جے پی کی اور بھی بری شکست ہونے والی ہے۔ اُس وقت کی حکومت کے تعلق سے عوام کے درمیان ایسی بے اطمینانی نہیں تھی جیسے کہ آج ہے اور واجپئی حکومت کو اس طرح استہزا کا موضوع نہیں بنایا جا رہا تھا جیسا کہ آج مودی حکومت کو بنایا جا رہا ہے اور واجپئی کی شان میں ایسے قصیدے نہیں پڑھے جا رہے تھے جیسے کہ آج نریندر مودی کی شان میں پڑھے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت عوامی مسائل کے تئیں جس طرح غیر حساس اور غیر سنجیدہ ہے ایسی تو کوئی حکومت نہیں تھی۔

ابھی پچھلے دنوں بی جے پی کی نیشنل ایکزیکٹیو کی میٹنگ ہوئی جس میں بہت سی باتوں پر غور کیا گیا لیکن ان مسائل پر کوئی غور نہیں کیا گیا جن سے آج عوام جوجھ رہے ہیں۔ نہ تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور اس کو روکنے کی کوئی تجویزپیش کی گئی اور نہ ہی ہندوستانی کرنسی کی قدر میں تیزی سے آنے والی گرواٹ کو تھامنے کا کوئی فارمولہ پیش کیا گیا۔ آسمان چھوتی مہنگائی کو نیچے لانے کی کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی سفارش کی گئی۔ نہ تو ایس سی ایس ٹی قانون کے خلاف نام نہاد اونچی ذاتوں کا احتجاج نظر آیا نہ ہی رفائل طیارے کی خرید میں کی جانے والی بدعنوانیوں پر کوئی گفتگو کی گئی۔ نہ تو مسئلہ کشمیر کو کوئی اہمیت ملی نہ ہی ہجومی تشدد کو۔ ہاں کن باتوں پر زور دیا گیا، ان پر کہ ہم 2019 کا الیکشن جیت رہے ہیں۔ جہاں مودی اور شاہ نے بی جے پی کی جیت کی بھوشیہ وانی کی وہیں روی شنکر پرساد اور پرکاش جاوڈیکر کو بھی کامیابی کی دیوی کے درشن ہو گئے۔

جب بھی موجودہ حکومت میں عوامی مسائل پر کوئی سوال پوچھا جاتا ہے تو اس کے لیے کانگریس کی سابقہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے اور پلہ جھاڑ لیا جاتا ہے۔ کوئی ایک بھی وزیر موجودہ مسائل پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب پرکاش جاوڈیکر سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ پر سوال پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ یو پی اے حکومت میں افراط زر کی شرح دس فیصد تھی جو اب کم ہو کر پانچ فیصد پر آگئی ہے۔ جب روی شنکر سے اونچی ذات کے احتجاج کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ مودی حکومت سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔ کسی بھی وزیر سے اس کی اپنی وزارت کی کارکردگی کے بارے میں پوچھیے تو وہ دوسری وزارت کے بارے میں بات کرنے لگتا ہے۔ ارون جیٹلی وزیر خزانہ ہیں لیکن وہ اقتصادی معاملات پر کچھ نہیں بولتے۔ راج ناتھ سنگھ وزیر داخلہ ہیں لیکن وہ ملکی سالمیت اور فرقہ وارانہ اتحاد و یکجہتی پر زبان نہیں کھولتے۔ جب ہجومی تشدد کے بارے میں مودی کی خاموشی کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ کسی نہ کسی طرح گھما پھرا کر کانگریس کا نام لے لیتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں بی جے پی نے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے سلسلے میں ایک ایسا مضحکہ خیز گراف جاری کیا تھا جسے گرافک کا کوئی بھی ماہر سمجھ ہی نہیں سکا۔ اس گراف نے بی جے پی کے گراف کو اور نیچے گرا دیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی اور امت شاہ سے لے کر چھٹ بھیا لیڈروں تک کوئی بھی کانگریس اور راہل گاندھی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن سب سے زیادہ گفتگو انھی کی کرتا ہے۔ سب سے زیادہ حملے راہل گاندھی ہی پر کیے جاتے ہیں۔ اب نہ ڈیولپمنٹ کا کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی مہنگائی و غریبی کا۔ راہل گاندھی نے صحیح کہا کہ انھوں نے ملک میں لاکھوں ٹوائلٹ تو بنوا دیے لیکن ان کے لیے پانی کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ مودی جی اب بھی ان بے پانی کے ٹوائلٹوں کا ذکر کرکے اپنی پشت تھپتھپاتے رہتے ہیں۔

امت شاہ اور دوسرے لیڈروں کی تقریریں سنیں تو کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے۔ بالخصوص امت شاہ کا یہ بیان کہ اخلاق اور ایوارڈ واپسی کے باوجود ہم ہی جیتیں گے، ایک خاص سمت میں اشارہ کر رہا ہے۔ یعنی ہم تشدد کے خلاف نہیں ہیں۔ اگر بیف کے الزام میں کچھ اور لوگ بھی مار دیے جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ ایسے واقعات جس قدر ہوں گے بی جے پی کو اسی قدر فائدہ ہوگا۔ گویا ایک طرح سے ایسے واقعات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

امت شاہ نے جب پچاس سال تک حکومت کرنے والا بیان دیا تو یہ بھی کہا کہ انھوں نے یہ بات کسی اہنکار یعنی تکبر و گھمنڈ میں نہیں کہی ہے بلکہ بی جے پی کے 9 کروڑ ممبران کی بنیاد پر کہی ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ان کا غرور ہی ان سے ایسے بیانات دلوا رہا ہے۔ بی جے پی کے ممبران کی تعداد 9 کروڑ ہو جائے یا 90 کروڑ، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ فرق عوام کی سوچ سے پڑتا ہے۔ اور آج نہ صرف غیر ہندو بلکہ وہ ہندو تاجر بھی جو بی جے پی کی ریڑھ کی ہڈی رہے ہیں 2019 میں اسے سبق سکھانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم تو کٹر بی جے پی والے ہیں لیکن مودی نے جس طرح ہماری تجارت چوپٹ کی ہے ہم اس کا انتقام ضرور لیں گے۔ ایسے فیصلے پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ دہلی اسمبلی کے انتخاب میں بی جے پی کے لیڈروں اور کارکنوں نے ہی اندر ہی اندر بغاوت کی تھی جس کی وجہ سے اس کے ممبران تین سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ مودی اور امت شاہ کو یہ بات سمجھنی چاہیے اور نہ سمجھیں تو ہمارے اوپر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایسے متکبرانہ بول قدرت کو پسند نہیں ہیں۔ وہ ایسے دنیاوی خداؤں کو ایسا سبق سکھاتی ہے کہ آنے والی نسلیں عبرت پکڑتی ہیں۔

اس موقع پر پاکستان کے انقلابی شاعر حبیب جالب کا ایک شعر یاد آرہا ہے جو انھوں نے جنرل ضیائ الحق کے دور میں جنرل ایوب خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ:

تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔