آدرش گھوٹالہ: اشوک چوہان غلط سوچ کا شکار ہوئے

آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی میں اب بھی مرکزی وزیر نتن گڈکری اور سریش پربھو کے فلیٹ موجود ہیں جب کہ اشوک چوہان کے سبکدوش فوجی افسر سسر نے خود کو الاٹ کیے گئے فلیٹوں کو لوٹا دیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سجاتا آنندن

جب نومبر 2010 میں آدرش گھوٹالے کا پردہ فاش ہوا تھا تو اشوک چوہان مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ تھے۔ تب عام سوچ یہ تھی کہ انھوں نے خصوصی ہاؤسنگ سوسائٹی میں 40 فیصد الاٹمنٹ عام لوگوں کے لیے محفوظ کرنے کے لیے فوجی افسران پر دباؤ بنایا تھا تاکہ وہ اور دیگر سرکاری افسران الاٹمنٹ سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ ان کے سسر اس سوسائٹی کو الاٹمنٹ کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ ان پر جب اپنی فیملی کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگا تو انھوں نے یہ کہہ کر خود کو مزید پھنسا لیا کہ فیملی کا مطلب صرف بیوی اور بچے ہیں نہ کہ بیوی کے والدین۔

حقیقت یہ ہے کہ جس زمین پر آدرش سوسائٹی کی تعمیر کی گئی تھی اس زمین کو غلطی سے محکمہ دفاع کا مان لیا گیا تھا۔ یہی غلط اندازہ گھوٹالے کی اصل وجہ تھی۔ بعد میں ایک سرکاری کمیٹی نے یہ ثابت کیا کہ وہ زمین مہاراشٹر حکومت کی تھی اور کارگل میں شہید ہوئے فوجیوں کے کنبہ کے لے ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیر کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔ چوہان نے جب عام شہریوں کے لیے ہاؤسنگ احاطہ کے الاٹمنٹ میں ریزرویشن کا مطالبہ کیا تھا تو اس وقت وہ وزیر اعلیٰ نہیں تھے بلکہ ولاس راؤ دیشمکھ کی کابینہ میں صرف وزیر خزانہ تھے۔ بطور وزیر اعلیٰ دیشمکھ اور سشیل کمار شندے آسانی سے ان کے فیصلے کو خارج کر سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

اشوک چوہان کے سسر سابق فوجی تھے اور اسی لیے آدرش سوسائٹی میں ایک فلیٹ کے حقدار تھے۔ جب گھوٹالے کا پردہ فاش ہوا تو اپنے داماد کی پریشانی کو سمجھتے ہوئے انھوں نے جو دو فلیٹ سوسائٹی میں خریدے تھے انھیں واپس کر دیا۔ اس وقت اپوزیشن میں رہے موجودہ مرکزی وزیر نتن گڈکری اور سریش پربھو بھی اس طرح کے الاٹمنٹ سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے تھے لیکن ان کے اوپر کوئی دباؤ نہیں پڑا اور انھوں نے آدرش سوسائٹی میں اپنے فلیٹوں پر قبضہ برقرار رکھا۔ سوسائٹی میں ریزرویشن کے ضابطہ کے تحت وہ پوری طرح سے فلیٹ لینے کے حقدار ہو سکتے تھے۔

آدرش معاملے کی جانچ کرنے والی جیوڈیشیری کمیشن نے آدرش الاٹمنٹ میں کئی اعلیٰ افسران اور سیاسی لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے معاملے پائے، لیکن چوہان کو جسٹس جے اے پاٹل اور این این کمبھر کے ذریعہ کسی بھی طرح سے قصوروار نہیں پایا گیا تھا، جنھوں نے 182 گواہوں سے پوچھ تاچھ کی۔ کئی افسران اور سیاسی لیڈروں کو قصوروار پایا گیا اور بے نامی اور غلط طریقے سے خریدے گئے 22 فلیٹوں سمیت سوسائٹی میں 25 فلیٹوں کے الاٹمنٹ پر سوال اٹھائے تھے۔

دہائیوں سے اقتدار سے باہر رہے شیواجی راؤ پاٹل نلنگیکر سمیت چار وزرائے اعلیٰ کو کئی غیر قانونی کاموں میں شامل رہنے کا ملزم بنایا گیا تھا۔ ان کے علاوہ سابق وزیر برائے شہری ترقی سنیل تٹکرے اور راجیش ٹوپے کو بھی اس معاملے میں نامزد کیا گیا تھا۔ دونوں ہی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے تھے۔

ولاس راؤ دیشمکھ کا 2012 میں انتقال ہو گیا اور شندے نے بڑے ہی شاندار طریقے سے یہ کہتے ہوئے کسی بھی ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کر لی کہ انھوں نے اپنے سابقین کی پالیسیوں پر عمل کیا تھا۔ ساری ذمہ داری انھوں نے چوہان کے اوپر ڈال دی۔ حالانکہ جیوڈیشیری کمیشن کو سابق وزیر اعلیٰ کے خلاف کیس چلانے لائق کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اسی بنیاد پر مہاراشٹر کے سابق گورنر کے. شنکرنارائنن نے سی بی آئی کو چوہان پر مقدمہ چلانے سے روک دیا تھا۔ اس قدم کو منصوبہ بند ٹھہرایا گیا کیونکہ گورنر اور چوہان دونوں اس وقت مہاراشٹر میں برسراقتدار پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ مہاراشٹر کے موجودہ گورنر سی. ودیاساگر راؤ نے سی بی آئی کے ذریعہ نئے ثبوت پیش کیے جانے کی بنیاد پر 2016 میں چوہان کے خلاف معاملہ چلانے کی منظوری دی تھی جسے اب بمبئی ہائی کورٹ نے نامناسب قرار دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سی بی آئی کی اس گزارش کے باوجود کہ عرضی کو کارج کرنا چوہان کو سبھی جرائم اور قصور سے آزاد کرنا ہوگا، ہائی کورٹ نے چوہان کے خلاف معاملہ چلانے کی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔

چوہان کے لیے یہ فیصلہ بہت بڑی راحت کی شکل میں آیا ہے اور انھوں نے عدلیہ پر اپنے بھروسے کا دوبارہ اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف کانگریس نے گورنر راؤ کے قدم کو سیاست سے متاثر قرار دیا ہے۔ اس معاملے میں گورنر وزراء کونسل کی صلاح کے ماتحت تھے جس نے چوہان پر مقدمہ چلانے کے فیصلے کی بنیاد جیوڈیشیری کمیشن کے نتائج کو بتایا تھا۔

2 جی معاملے میں سی بی آئی عدالت کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے ممبئی کانگریس کے سنجے نروپم کا سی بی آئی جج کے بیان کو بنیاد بنا کر یہ کہنا کہ آدرش معاملے میں ثبوتوں کو اس طرح سے پیش کیا گیا تھا کہ گھوٹالہ ظاہر ہو، کسی بھی طرح حیرانی کی بات نہیں۔ حالانکہ آدرش سوسائٹی معاملہ ایک ایسا گھوٹالہ ضرور تھا جس میں کئی نوکرشاہوں کو نہ صرف معطل کیا گیا تھا بلکہ جیل بھی ہوئی تھی۔ کئی فوجی افسران کے علاوہ سوسائٹی کے پروموٹر کنہیال گڈوانی نے بھی جیل کا سامنا کیا۔ گڈوانی، جن کا جیل میں کچھ ہی دن رہنے کے بعد انتقال ہو گیا تھا، نے اس عمارت کی تعمیر میں رخنہ پیدا کر رہے قوانین سے پار پانے کے لیے ’لالچ‘ کا خوب استعمال کیا تھا۔ جھکنے یا قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ہر افسر کو سوسائٹی میں ایک فلیٹ الاٹ کیا گیا تھا اور آگے کسی بھی طرح کے تنازعہ کو روکنے کے لیے بی جے پی اور شیو سینا سمیت سبھی پارٹی کے لیڈروں کو اس منصوبہ کے تحت فلیٹ الاٹ کیے گئے۔

حالانکہ گھوٹالے کا پردہ فاش ہوا اور آدرش سوسائٹی میں ایک فلیٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی بھر کی کمائی کو جھونک دینے والے بہت سے بے قصور الاٹیز کو عدالت کے اس پہلے حکم سے دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑا جس میں عمارت کے کچھ حصوں کو منہدم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

اس درمیان موجودہ ریاستی کانگریس سربراہ چوہان کو ایک نیا موقع مل سکتا ہے کیونکہ ان کی پارٹی مہاراشٹر کے آئندہ انتخابات میں پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے قابل اعتماد متبادل کی تلاش کر رہی ہے۔ چوہان 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ناندیڑ سے منتخب پارٹی کے دو ممبران پارلیمنٹ میں سے ایک ہیں۔ اس سال ستمبر میں ان کے آبائی ضلع ناندیڑ کے میونسپل کارپوریشن انتخابات میں کانگریس نے 81 سیٹوں میں سے 73 پر فتحیابی حاصل کی تھی۔ اس وقت سے کانگریس کا حوصلہ کافی بڑھا ہوا ہے۔

اب گجرات میں اپنی کارکردگی اور 2 جی گھوٹالے میں سبھی ملزمین کے بے قصور ثابت ہونے کے ساتھ آدرش معاملے میں آیا فیصلہ کانگریس کے لیے ایک راحت کی شکل میں آیا ہے۔ کیونکہ چوہان کے علاوہ مہاراشٹر میں کچھ ہی زمینی سطح کے لیڈر ہیں جن سے آئندہ انتخابات میں پارٹی کی قیادت کرنے اور بی جے پی کو زبردست چیلنج پیش کرنے کی امید کی جا سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔