بیلاروس: انتخابی نتائج برآمد ہونے کے بعد زبردست مظاہرہ، 3 ہزار افراد زیر حراست

صدارتی انتخاب میں شکست کھانے والی سویتلانا نے جیل میں قید اپنے شوہر کی جگہ یہ الیکشن لڑا اور اپوزیشن کی بڑی ریلیوں کی انہوں نے قیادت کی۔ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔

تصویر ڈی ڈبلیو
تصویر ڈی ڈبلیو
user

یو این آئی

منسک: بیلاروس میں صدراتی انتخاب کے نتائج کے خلاف ہونے والے مظاہرے کے دوران تقریباً 3000 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ بیلاروس کی وزارت داخلہ کے پریس سکریٹری نے پیر کو یہ اطلاع دی۔ بیلاروس میں اتوار کو صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے گئے تھے۔ سینٹرل الیکشن کمیشن کے مطابق صدر الیگژنڈر لُکاشینکو کو 81.35 ووٹ ملے ہیں جبکہ اپوزیشن امیدوار سویتلانا تیکھانووسکیا کو محض آٹھ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے بیلاروں کے کئی بڑے شہروں میں لکاشینکو کے حامی سڑکوں پر اتر آئے اور پھر دوسرے گروہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہونے شروع ہو گئے۔

میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق بیلاروس کے تقریباً 33 شہروں میں ہزاروں لوگوں نے مظاہرہ کیا۔ پولس نے مظاہرے میں حصہ لینے والے تقریباً 3000 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ بیلاروس کی وزارت داخلہ نے پولس اور مظاہرین کے درمیان ہوئی جھڑپوں میں 39 افسر اور 50 شہریوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔


انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد شکست خوردہ سویتلانا نے کہا کہ انھیں نتائج پر بالکل بھی یقین نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیلاروس کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ سابق استاذ 37 برس کی سویتلانا نے جیل میں قید اپنے شوہر کی جگہ یہ الیکشن لڑا ہے اور اپوزیشن کی بڑی ریلیوں کی انہوں نے قیادت کی ہے۔ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔

اپوزیشن نے اقتدار کے پر امن منتقلی کے لیے افسران سے گفتگو کی پیش کش بھی کی ہے۔ سویتلانا نے کہا کہ ’افسران کو اب اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہمیں کس طرح پر امن ڈھنگ سے اقتدار سونپ دی جائے‘۔قابل ذکر ہے کہ لُکاشینکو بیلاروس میں 1994 سے مسلسل اقتدار پر قابض ہیں لیکن وہ اپنے 26 برس کے دور اقتدار میں پہلی بار اقتدار پر گرفت بنائے رکھنے میں چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں انہوں نے ملک میں استحکام کی ضمانت دینے والے رہنما کی اپنی شبیہ بنائی ہے لیکن کورونا وائرس وبا سے نمٹنے، ملک کی معیشت کو پٹری پر لانے اور انسانی حقوق کے سلسلے میں مسلسل ان کی تنقید ہو رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 Aug 2020, 8:58 PM