حکومت کی منشاء ہندوستانی جغرافیہ کے خلاف

قومی اہمیت کے حامل اس انتہائی اہم مسئلے پراپوزیشن کی رائے بہت ضروری ہوگی بصورت دیگرایک پارٹی یا حکومت کی منشاء ہندوستان کے جمہوری اقدارکو  تباہ کرنے کے مترادف ہوگی۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

نواب علی اختر

ہندوستان کا جمہوری نظام متنوع ہے۔ جغرافیائی، ثقافتی اور سماجی شکل میں یہ نظربھی آتا ہے۔ مختلف لسانی شناختوں سے آراستہ ہندوستانی سماج میں کئی شکلیں ہیں۔ یہاں کی ثقافت علاقے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ اس کو سمجھتے ہوئے تحریک آزادی اور جدوجہد کے بعد ملک کی تعمیر کے لیے آئین ساز کمیٹی میں اتفاق اوراختلاف کے خیالات کو مناسب نمائندگی دی گئی تاکہ ہندوستان کے تنوع میں اتحاد کا جذبہ ایک شکل اختیار کر سکے۔ آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ بنائے ہوئے آئین میں جمہوری نظام کو چلانے کے لیے مرکز اور ریاست میں ہر پانچ سال بعد انتخابات کرانے کا التزام کیا گیا ہے۔ آئین میں وفاق کا نام ’انڈیا‘ کو ریاستوں کا وفاق کہا گیا ہے۔ اس کا ڈھانچہ وفاقی ہے۔

اس کے ساتھ ہی مرکز اور ریاست کے نظام کو الگ کرنے کے لیے ساتویں شیڈول میں وفاقی فہرست،ریاستی فہرست اورہم آہنگی فہرست کا بندوبست کیا گیا ہے جس سے مرکز اور ریاست کے درمیان انتظامی اختیارات اور حدود کے درمیان تنازعہ سے بچا جا سکے۔ ہندوستانی آئینی نظام میں عزت مآب صدر کو شخص اول کی حیثیت حاصل ہے۔ جس کا انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام کے مطابق ووٹ منتقلی کے ذریعہ ہوتا ہے جبکہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کی کابینہ کا لیڈر ہوتا ہے جو روایتی ووٹنگ نظام کے ذریعے منتخب ہوتا ہے۔ ریاستوں میں یہ نظام گورنر اور وزیر اعلیٰ کے طورپر نظر آتا ہے۔ مرکز اور ریاست کے انتخابات جہاں الیکشن کمیشن کرواتا ہے وہیں ریاستوں میں بلدیہ اور پنچایتی انتخابات ریاستی الیکشن کمیشن کے ذریعے کرائے جاتے ہیں۔


مذکورہ تجزیہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ ہندوستان میں انتخابات کا انداز یکساں نہیں ہے۔ آزاد ہندوستان کے آئینی نظام میں تنوع ایک موثر عنصر ہے جس میں قومی سطح پر ملک کے تقریباً تمام صوبوں کی نمائندگی دیکھنے کوملتی ہے۔ صدر، نائب صدر، وزیر اعظم اور دیگر اہم آئینی عہدوں کا تنوع ہندوستان کو بحیثیت ایک قوم باندھتا ہے۔ موجودہ انتخابی عمل میں عام انتخابات کے دوران قومی اور عالمی مسائل مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ جس کا فائدہ قومی سیاسی پارٹیوں کوملتا ہے۔ جبکہ ریاستوں کے انتخابات میں علاقائی مسائل کی اہمیت رہتی ہے۔ ان انتخابات میں علاقائی پارٹیاں سماجی ڈھانچے سے براہ راست تعلق کی وجہ سے فائدے کی حالت میں رہتی ہیں۔

ہندوستان جیسے بڑی آبادی والے ملک میں قومی اور علاقائی پارٹیوں کے مضبوط رہنے سے مختلف ریاستوں کی خواہشات کو مناسب پلیٹ فارم ملتا رہتا ہے۔ اس سے ملک کی کئی ریاستوں کے معاملے پر اجتماعی نقطہ نظر پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہندوستان کے اندر کسی خاص علاقے کے مسائل سے پورے ملک کے انتخابات متاثر نہیں ہوتے ہیں۔ مختلف ریاستوں میں ہونے والے انتخابات سے عام لوگوں کی ووٹنگ اور منتخب حکومت کے ذریعے مرکز پر دباوبھی پڑتا ہےجس کی وجہ سے مکمل اکثریت کے ساتھ منتخب حکومت پر عوامی دباو دیگر ریاستوں کے انتخابی نتائج سے نظر آتا ہے۔ان تمام حالات میں’ایک ملک،ایک الیکشن‘کسی صورت موزوں نہیں ہے۔


مہنگے انتخابی اخراجات کی دہائی دے کر ’ون نیشن ون الیکشن‘ کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کو کم کرنے کے لیے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرائے جانےکی دلیل دی جارہی ہے۔ اس تناظر میں ہندوستان کی صورتحال کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ حال ہی میں منی پورمیں دوقبائل کے درمیان ہوئے تشدد کو روکنے کے لیےہندوستانی فوج اور منی پور پولیس انتظامیہ کو دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ اسی طرح ہریانہ کے میوات میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد پرقابو پانے کے لیے فوج کی مدد لینی پڑی۔ مغربی بنگال میں ہوئے تشدد کو ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے  اور قبائلی علاقوں میں نکسل ازم کا چیلنج بدستور قائم ہے۔

ہندوستان کی جغرافیائی ساخت کئی موسمی حالات پر محیط ہے جس میں ایک ہی وقت گرمی، برف باری، طوفانی بارشیں اور خشک سالی جیسے حالات رہتے ہیں۔ کہیں شدید گرمی تو کہیں برفباری ہوتی رہتی ہے۔ ان حالات میں’ ون نیشن ون الیکشن‘ کے لیے کون سا موسم سازگار ہوگا یہ بھی بڑاسوال ہے۔ جس سے ناقابل رسائی مقامات پرنامساعد موسمی حالات میں بھی انتخابی پروگرام ایک ساتھ منعقد کیے جا سکیں۔ ایسے میں کوئی بھی نیا تجربہ کرنے سے پہلے جامع مکالمہ بہت ضروری ہے۔ اس سمت میں مرکزی حکومت کو آئینی طور پر خود مختار ادارے جیسے الیکشن کمیشن کو ذمہ داری سونپ دینا چاہئے جس سے حکمران پارٹی کے علاوہ اپوزیشن پارٹیوں اور دیگرسیاسی پارٹیوں کواس عمل پراعتماد ہوسکے۔ساتھ  ہی عوام میں اپنی معتبریت سے وابستہ شناخت اورمسائل کے قومی بنیادوں پر کھو جانے کا خوف نہ ہو۔


ہندوستان کا آئین دنیا کے کئی ممالک کے انصاف پسند التزامات کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا ہندوستان کا موازنہ دوسرے ممالک سے نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان کے آئین میں تمام مذاہب کا احترام کیا گیا ہے اور ریاست کا کردار سیکولر ہے۔ یہ مختلف لسانی اور ثقافتوں کا سنگم ہے۔ جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک ایک ہی فرقے اور مذہب پر مبنی ہیں۔ ان ممالک کے شہریوں کی جسمانی ساخت اور ثقافت ایک جیسی ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہندوستان کی شناخت کو باقی دنیا سے ممتاز کرتا ہے۔

اس لئے ’ ون نیشن ون الیکشن‘ کے حوالے سے سابق صدر رام ناتھ کووند کی صدارت میں کمیٹی کی تشکیل کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانا انتخابی تناظر کوہی واضح کرتا ہے۔ انتخابی سال میں یہ مہم شروع کرنے کی وجہ سے اس کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے اختلاف ہونا فطری ہے۔ قومی اہمیت کے حامل اس انتہائی اہم مسئلے پراپوزیشن کی رائے بہت ضروری ہوگی بصورت دیگرایک پارٹی یا حکومت کی منشاء ہندوستان کے جمہوری اقدارکو تباہ کرنے کے مترادف ہوگی۔


نوٹ: مضمون میں رائے مضمون نگار کی ہے اور قوم آواز کا  مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا لازمی نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


;