بی جے پی کی پریشانیوں میں اضافہ

 ’انڈیا‘ اتحاد کی حالیہ پیش رفتوں کو دیکھتے ہوئے بی جے پی پہلے ہی سے پریشان ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے نام کومنظم انداز میں’ انڈیا‘ سے ’بھارت‘ کرنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس&nbsp;</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

نواب علی اختر

ملک کی 6 ریاستوں کی 7 اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج پرگزشتہ کئی روز سے خصوصی توجہ دی جا رہی تھی اور اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ اس کا وقت تھا۔ اپوزیشن ’انڈیا‘ اتحاد کے قیام کے بعد یہ پہلا انتخابی ٹکراو تھا۔ اس کا رقبہ بھی بہت وسیع تھا۔ شمال میں جھارکھنڈ، اترپردیش اور اتراکھنڈ سے لے کر جنوب میں مغربی بنگال، تریپورہ اور کیرالہ تک کی سیٹوں پر مقابلہ تھا۔ دوسری بات یہ کہ یہ ضمنی انتخابات پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور پھر لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے ہوئے تھے۔ تاہم اگرمجموعی طورپر دیکھا جائے یہ انتخابی نتائج ’انڈیا‘ کے لیے نیک شگون کہے جاسکتے ہیں۔ سات سیٹوں میں سے چارسیٹیں اپوزیشن پارٹی اورتین بی جے پی کے حصے میں آئی ہیں۔

غورطلب ہے کہ کیرالہ (پتھوپلی) سیٹ پر پورے الیکشن میں بی جے پی کسی بھی سطح پرمقابلے میں ہی نظر نہیں آرہی تھی۔ یہاں کانگریس یو ڈی ایف نے شاندارکامیابی حاصل کی۔ وہیں انتخابی دھاندلی کے الزامات کے درمیان تریپورہ کی دونوں سیٹیں بی جے پی کے کھاتے میں گئیں۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے انتخابی دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے وہاں ووٹوں کی گنتی کا بائیکاٹ کیا تھا۔ مذکورہ سیٹوں پردھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ وہیں مغربی بنگال (دھوپگوری) میں ووٹ تقسیم روکنے کے لیے اپوزیشن نے کوئی مشترکہ امیدوار نہیں اتارا تھا جوسیدھے طور پر ترنمول کانگریس کے لیے آسان جیت کی راہ ہموارکرنا تھا۔


یہاں بھی اپوزیشن کی حکمت عملی کامیاب ہوئی اورترنمول کانگریس نے شاندارجیت درج کرکے بی جے پی کو بغلیں جھانکنے پرمجبورکردیا۔ حالانکہ بی جے پی یہ کہہ کر خوش ہورہی ہے کہ ترنمول سے مقابلہ کرنے والی وہ واحد پارٹی ہے اور اس نے کانگریس اور بائیں بازو کو پیچھے دھکیل دیا لیکن اب چونکہ لوک سبھا انتخابات کے معاملے میں بائیں بازو کی پارٹیاں، کانگریس اور ترنمول سبھی ایک طرف کھڑی نظر آتی ہیں، اس لیے یہ تسلی بی جے پی کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ پھر بھی اگر’انڈیا‘ اتحاد کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جھارکھنڈ کی ڈمری اور یوپی کی گھوسی سب سے اہم سیٹیں مانی جائیں گی۔ گھوسی کی اہمیت اس معنی میں ہے کہ اپوزیشن کیمپ کی کسی بھی پارٹی نے وہاں سماج وادی پارٹی کے امیدوار کے خلاف امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔

ایسے میں جھارکھنڈ کے ڈمری میں جے ایم ایم کی جیت اور یوپی کے گھوسی میں سماج وادی پارٹی کی جیت خاص اہمیت کی حامل کہی جائے گی۔ ان انتخابات نے بی جے پی کو صاف اشارہ دے دیاہے کہ ’انڈیا‘ اتحاد کو ہلکے سے لینے کی غلطی نہ کی جائے۔ حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اس کا ثبوت سات اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات ہیں جن میں اپوزیشن کے انڈیا اتحاد کو بی جے پی اور این ڈی اے پر سبقت حاصل ہوئی ہے۔ ان نتائج نے آئندہ پارلیمانی انتخابات اور 5 ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے بی جے پی کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ حالانکہ ضمنی انتخابی نتائج کا کسی ریاست کی اسمبلی یا حکومت پر منفی یا مثبت اثر ہونے والا نہیں تھا تاہم اس نے سیاسی جماعتوں میں حوصلہ پیدا کیا ہے۔


’ انڈیا‘ اتحاد میں شامل ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کو ان ضمنی انتخابات میں بی جے پی پر کامیابی حاصل ہوئی ہے اور یہ بی جے پی کے لیے نوشتہ دیوار سے کم نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ نتائج ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پورا ملک انتخابی ماحول سازی میں مصروف ہے۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم میں عنقریب انتخابات ہونے ہیں اور ان کے لیے کبھی بھی انتخابی شیڈول جاری کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں’ انڈیا‘ اتحاد کے لئے یہ نتائج ایک اچھی علامت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان نتائج کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ انڈیا اتحاد میں شامل مختلف جماعتوں کو یہ کامیابی ملی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے۔

اترپردیش میں سماجوادی پارٹی نے جیت درج کی ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کامیاب رہی ہیں تو کیرالا میں کانگریس نے اپنی عوامی مقبولیت کا ثبوت دیا ہے۔ اس طرح ملک کی الگ الگ ریاستوں میں مختلف پارٹیوں کی بی جے پی کے خلاف کامیابی نے ایک طرح سے صورتحال کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان نتائج سے یہ واضح ہونے لگا ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی بی جے پی کے خلاف رائے عامہ پیدا ہوئی ہے اور عوام ایک موثر اور بہتر متبادل کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ موجودہ ماحول میں یہ نتائج اس لئے بھی زیادہ اہم ہوجاتے ہیں کیونکہ ’انڈیا‘ اتحاد نے متحدہ مقابلہ نہیں کیا تھا۔ متحدہ مقابلہ کے نتائج اور بھی مختلف ہوسکتے تھے۔


حالایہ کامیابی کے بعد آئندہ اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات کے لیے ’انڈیا‘ اتحاد کی جو تیاریاں ہیں وہ اب اور بھی تیز ہوچکی ہیں۔ قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کے اندیشوں کو دیکھتے ہوئے اس اتحاد نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے۔ مختلف پروگراموں کی تیاری کے ساتھ ساتھ مشترکہ حکمت عملی پر غور و خوض جاری ہے۔ جب بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کے مشترکہ مقابلہ کا فیصلہ ہو جائے گا اور سیٹ تقسیم پر اتفاق رائے پیدا کرتے ہوئے بی جے پی کے خلاف ایک مشترکہ امیدوار میدان میں ا تارا جائے گا تو پھر بی جے پی کے لیے مقابلہ آسان نہیں ہوگا۔ ’انڈیا‘ اتحاد کی حالیہ پیش رفتوں کو دیکھتے ہوئے بی جے پی پہلے ہی سے پریشان ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے نام’ انڈیا‘ سے ’بھارت‘ کرنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کے نتائج بھی اگر حالیہ ضمنی انتخابات کی طرح آتے ہیں اور بی جے پی کو کسی بھی ریاست میں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھرلوک سبھا انتخابات 2024 کا منظرنامہ اور بھی زیادہ واضح ہوجائے گا اور بی جے پی کے خلاف بننے والے اتحاد کے حوصلے بلند ہوجائیں گے۔ سات اسمبلی حلقوں کے نتائج سے پہلے ہی بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوچکا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میڈیا کے ایک بڑے طبقے کو’انڈیا‘ اتحاد کی کامیابی اور بی جے پی کی ناکامی پرسانپسونگھ گیا تھا مگرغیرجانبدارملکی اورغیرملکی میڈیا نے ضرورانصاف کیا اوراقتدار کے نشے میں دُھت پارٹی کو کافی حد تک جھنجھوڑ کررکھ دیا۔

نوٹ: مضمون میں مضمون نگار کی رائے ہے اور قومی آواز کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا لازمی نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


;