کیا بی جے پی کی جیت واقعی مذاکرات میں معاون ہوگی؟

عمران خان کے تازہ بیان نے نہ صرف بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کی ہے بلکہ اس بیان سے کئی حلقوں میں ہند۔پاک تعلقات پر بحث بھی چھڑ گئی ہے۔

کیا بی جے پی کی جیت واقعی مذاکرات میں معاون ہوگی؟
کیا بی جے پی کی جیت واقعی مذاکرات میں معاون ہوگی؟
user

ڈی. ڈبلیو

پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بروز منگل غیر ملکی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی کی انتخابات میں ممکنہ فتح ہند ۔ پاک مذاکرات کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابات جیتتی ہے تو شاید کشمیر پر کسی طرح کا کوئی تصفیہ ہو جائے۔
پاکستان میں کئی حلقے عمران خان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کے خیال میں ایسا ممکن ہے، ’’دیکھیں کانگریس نے کبھی پاکستان سے مذاکرات کی صحیح معنوں میں کوشش نہیں کی۔ جنرل مشرف نے من موہن سنگھ کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی تھی لیکن وہ بھی اسٹیٹس کو کو بر قرار رکھنے کے لیے تھی لیکن بی جے پی جب اقتدار میں آئی تو اس نے پاکستان سے مذاکرات کے لیے بڑے جرات مندانہ اقدامات اٹھائے۔ واجپائی لاہور آئے اور اعلانِ لاہور بھی ہوا۔ تو اگر بی جے پی جیتتی ہے تو مذاکرات کے امکانات زیادہ ہوں گے۔‘‘
کئی ناقدین کی رائے میں ہندوستانی وزیرِ اعظم نریندر مودی سخت گیر سیاست دان ہیں، جن کی سیاست کی بنیاد ہی پاکستان اور مسلم دشمنی پر ہے۔ شمشاد احمد خان بھی مودی کے سخت گیر موقف کو ایک مسئلہ سمجھتے ہیں،’’مودی نے پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ سخت لائن لی ہے۔ اب اگر وہ مذاکرات میں پہل کرتے ہیں تو ان کا ووٹر ناراض ہو سکتا ہے لیکن بی جے پی میں بہت سے اور بھی رہنما ہیں۔ اگر واجپائی جیسا کوئی ٹھنڈے مزاج کا رہنما وزیرِاعظم بنتا ہے، تو پھر مذاکرات آسان ہو جائیں گے لیکن مودی کے وزیرِ اعظم بننے کی صورت میں تھوڑی مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔ تاہم مذاکرات پھر بھی ممکن ہیں۔‘‘
پاکستان میں ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں کیونکہ عمران خان کو جی ایچ کیو کی حمایت حاصل ہے، اس لیے بی جے پی کی فتح کی صورت میں مذاکرات آسان ہو سکتے ہیں۔

معروف تجزیہ کار اور روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے ایگزیکیٹو ایڈیٹر ضیاء الدین کے خیال میں عمران خان کا بیان غیر حقیقت پسندانہ نہیں ہے، ’’عمران فوج کا ترجمان ہے اور دائیں بازو کا آدمی بھی ہے۔ مودی بھی دائیں بازو کی سیاست کرتے ہیں اور دنیا میں دائیں بازو یا سخت گیر سیاست کرنے والوں نے تنازعات کو حل کرنے میں مدد بھی کی ہے۔ ریگن نے سوویت یونین کے ساتھ مل کر سرد جنگ ختم کی۔ انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ کیا اور یاسر عرفات نے اوسلو معاہدہ کیا، تو یہ ممکن ہے۔ ہاں جو بات عمران نے کہی ہے اگر وہ ہی بات پی پی پی کہتی تو اس کی جان عذاب میں ہو جاتی۔ آصف علی زرداری نے کچھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اسے شٹ اپ کال دی گئی۔‘‘
تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ بی جے پی اپنا طرزِ سیاست کبھی نہیں تبدیل کرے گی کیونکہ اس کی پوری سیاست مسلم دشمنی اور پاکستان کی مخالفت پر ہے۔ ان مبصرین کا کہنا ہے کہ اسی اور ستر کی دہائیوں میں بی جے پی کی بھارتی پارلیمنٹ میں کوئی حیثیت نہیں تھی لیکن بابری مسجد کے واقعے نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا اور یہ کہ وہ اب بھی فرقہ وارانہ سیاست ہی کر رہی ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکڑ طلعت اے وزارت کے خیال میں عمران خان کا بیان حقیقت پسندانہ نہیں ہے، ’’مودی اور بی جے پی کو کوئی ایک مرتبہ انتخابات تو نہیں لڑنے ہیں۔ وہ تو بار بار انتخابات میں جائیں گے اور ان کے پاس فرقہ وارانہ نعروں اور پاکستان دشمنی کے علاوہ کیا ہے۔ کرتار پور کے مسئلے پر بھی انہوں نے بے جا مطالبات کیے ، کیونکہ وہ یہ راستہ کھولنا نہیں چاہتے، لیکن انہیں ایسا سکھ کمیونٹی کی وجہ سے کرنا پڑا۔ تو میرا نہیں خیال کہ مودی انتخابات جیت کر پاکستان سے بات چیت کرے گا۔‘‘
کچھ سیاست دان بھی ڈاکڑ طلعت کی اس بات سے متفق نظر آتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ کے خیال میں مودی ابھی اتنے طاقت ور ہیں تو وہ یہ مسائل پیدا کر رہے ہیں،’’انتخابات جیتنے کے بعد تو وہ اور بھی طاقت ور ہو جائیں گے اور ایسی صورت میں وہ پاکستان سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ میرے خیال میں تو وہ انتخابات جیت کر پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کریں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔