حکومت آپ کے ہر میسیج پر رکھنا چاہتی ہے نظر، نیا قانون نافذ ہوا تو بند ہو جائے گا ’وہاٹس ایپ‘

فیس بک کی ملکیت والی وہاٹس ایپ یوں تو ’اِنڈ -ٹو- اِنڈ ڈسکرپشن‘ پیش کرتا ہے، یعنی پیغامات صرف بھیجنے والا اور اسے حاصل کرنے والا ہی پڑھ سکتا ہے، لیکن مودی حکومت اب ان پیغامات پر بھی نظر رکھنا چاہتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ہندوستان میں کاروبار کر رہی سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے حکومت کے ذریعہ مجوزہ کچھ شرائط و ضوابط اگر نافذ ہو جاتے ہیں تو اس سے ’وہاٹس ایپ‘ کے موجودہ وجود پر ہندوستان میں خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ کمپنی کے ایک سرکردہ افسر نے بدھ کے روز یہ جانکاری دی۔ ہندوستان میں وہاٹس ایپ کے 20 کروڑ ماہانہ صارفین ہیں اور یہ کمپنی کے لیے دنیا کا سب سے بڑا بازار ہے۔ کمپنی کے دنیا بھر میں کل 1.5 ارب صارفین ہیں۔

دہلی میں ایک میڈیا ورکشاپ کے موقع پر وہاٹس ایپ کے کمیونکیشن سربراہ کارل ووگ نے بتایا کہ ’’مجوزہ شرائط و ضوابط میں سے جو سب سے زیادہ فکر کا باعث ہے وہ میسیج کا پتہ لگانے پر زور دینا ہے، یا انھیں پڑھنا ہے۔‘‘ فیس بک کی ملکیت والی وہاٹس ایپ ڈیفالٹ طور پر اِنڈ-ٹو-اِنڈ انکرپشن کی پیشکش کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف پیغام بھیجنے والا اور اسے حاصل کرنے والا ہی پیغام پڑھ سکتا ہے اور یہاں تک کہ وہاٹس ایپ بھی اگر چاہے تو بھیجے گئے پیغامات کو پڑھ نہیں سکتا ہے۔ ووگ کا کہنا ہے کہ اس فیچر کے بغیر وہاٹس ایپ کی شکل ہی بدل جائے گی اور وہ بالکل نیا پرودکٹ بن جائے گا۔

ووگ امریکہ میں براک اوباما کے صدارتی دور میں ان کے ترجمان کی شکل میں بھی خدمات دے چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجوزہ تبدیلی جو نافذ ہونے جا رہی ہیں، وہ اس مضبوط رازداری سیکورٹی کے لیے موزوں نہیں ہے، جسے دنیا بھر کے لوگ چاہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’ہم انڈ-ٹو-اِنڈ انکرپشن مہیا کراتے ہیں، لیکن نئے ضوابط کے تحت ہمیں ہمارے پروڈکٹ کو دوبارہ سے تیار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ انھوں نے آگے کہا کہ ایسی صورت میں میسیجنگ خدمات اپنی موجودہ شکل میں موجود نہیں رہیں گی۔

ووگ نے نئے قوانین نافذ ہونے کے بعد ہندوستانی بازار سے باہر نکل جانے کے امکانات کو خارج بھی نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’اس بارے میں اندازہ لگانے سے کوئی مدد نہیں ملے گی کہ آگے کیا ہوگا۔ اس ایشو پر ہندوستان میں بحث کرنے کے لیے ایک عمل پہلے سے ہی موجود ہے۔‘‘ اِنڈ-ٹو-اِنڈ انکرپشن فیچر سے قانون انفورسمنٹ ایجنسیوں کے لیے افواہ پھیلانے والے ملزمین تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کے لیے اطلاعات و نشریات وزارت کے ذریعہ مجوزہ قوانین کے تحت ان کے اپنی خدمات کے غلط استعمال اور تشدد پھیلانے سے روکنے کے لیے ایک مناسب طریقے پر عمل کرنا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Feb 2019, 11:09 AM