یمنی جنگ میں جرمنی ’جلتی پر تیل ڈال رہا ہے‘: ناقدین کا الزام

جرمن حکومت نے 2019ء کے دوران ایسے ممالک کو ایک ارب یورو سے زائد کا اسلحہ فروخت کرنے کی اجازت دی، جو یمن میں جاری جنگ میں شامل ہیں۔ مختلف حلقوں کی جانب سے اس سلسلے میں برلن حکام پر تنقید کی گئی ہے۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

ناقدین کا کہنا ہے کہ ان ممالک کو ہتھیار فروخت کرتے ہوئے جرمن حکومت پانچ سال سے زائد عرصے سے جاری اس جنگ میں 'جلتی پر تیل کا کام‘ کر رہی ہے۔ جرمن سیاسی جماعت دی لِنکے کی رکن پارلیمان سیوِم ڈاگڈیلن کہتی ہیں کہ برلن حکومت کے ملکی اسلحے کی برآمدات کو محدود کرنے کی پالیسی سے متعلق دعوے بالکل بے بنیاد ہیں۔

ڈاگڈیلن ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق پالیسیوں کے حوالے سے اپنی جماعت کی ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ خارجہ امور کی ماہر بھی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملکی وزارت اقتصادیات کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ جرمن اسلحہ ساز اداروں نے گزشتہ برس کے آغاز سے ایک ارب یورو سے زیادہ کا اسلحہ ایسے ممالک کو فروخت کیا، جو یمن کی جنگ میں سرگرم عسکری اتحاد میں شامل ہیں۔


مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات کو، جو حوثی باغیوں کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ دے رہا ہے۔ 2109ء میں جرمنی نے اس خلیجی ریاست کو 256 ملین یورو کے ہتھیار فروخت کرنے کی اجازت دی۔ خارجہ امور کی ماہر اس جرمن سیاستدان کے مطابق متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب موجودہ دور کے سب سے بڑے انسانی بحران کے ذمہ دار ہیں۔ اقوام متحدہ بھی یمن کے اس بحران کو حالیہ دنوں کا سب سے بڑا انسانی المیہ قرار دے چکا ہے۔ سیوِم ڈاگڈیلن کے بقول ضرورت اس بات کی ہے کہ جرمنی کی طرف سے متحدہ عرب امارات کو ہر طرح کے ہتھیاروں کی برآمد فوری طور پر روک دی جائے۔

جرمن اسلحے کا ایک اور بڑا خریدار مصر بھی ہے۔ مصر یمن کی سمندری ناکہ بندی میں شامل ہے۔ مصر کی طرف سے اسلحے کی خریداری کی فہرست میں جرمن کمپنی تھِسّن کرُپ میرین سسٹمز کا تیار کردہ ایک جنگی بحری جہاز اور ایک آبدوز بھی شامل ہیں۔ 2109 ء کے دوران جرمن حکومت کی جانب سے مصر کو 802 ملین یورو کے ہتھیار فروخت کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ برلن حکومت نے اردن، بحرین اور کویت کے ساتھ بھی اس طرح کے سودوں کی منظوری دی۔


آج کل جرمن حکومت نے صرف سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یہ پابندی ریاض حکومت کے ناقد سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عائد کی گئی تھی۔ خاشقجی کو نومبر 2108ء میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ جرمن حکومت نے اس پابندی میں بعد ازاں 31 دسمبر 2020ء تک کے لیے توسیع بھی کر دی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔