مسلم بھائیوں کے ہاتھوں پر ہندو بہنوں کی راکھیاں

اس بار بھی راکھی کے تہوار پر متعدد ہندو بہنوں نے مسلم بھائیوں کے ہاتھوں پر راکھی باندھی ہیں اور سماج میں نفرت کا زہر گھولنے والوں کے منھ پر کرارا طمانچہ رسید کیا ہے۔

تصویر قومی آواز/آس محمد
تصویر قومی آواز/آس محمد
user

آس محمد کیف

عمران انصاری (25) اترپردیش کے بجنور میں رہتے ہیں۔ یہاں گزشتہ سال ایک دلدوز واقعہ پیش آیا۔ ایک 6 سالہ معصوم بچے لوی کو اس کے ماموں زاد بھائی نے ہی قتل کر دیا۔ اس سانحہ کے کچھ دن بعد ہی رکشا بندھن کا تہور آیا تو لوی کی دونوں بہنیں پریہ اور شالو کی آنکھیں نم تھیں۔ ان کا اکلوتا بھائی اب اس دنیا میں نہیں تھا جسے وہ راکھی باندھ سکیں۔

مسلم بھائیوں کے ہاتھوں پر ہندو بہنوں کی راکھیاں

عمران نے ان دونوں بہنوں سے کہا کہ وہ اس کے ہاتھ پر راکھیاں باندھیں۔ عمران اس مرتبہ بھی ان دونوں بہنوں سے راکھی بندھوانے پہنچا۔ عمران نے کہا، ’’میں دونوں بہنوں کے غم کو ختم تو نہیں کر سکتا لیکن میں نے ان سے اتنا ضرور کہا کہ وہ مجھے اپنا بھائی سمجھیں۔‘‘

ہندوستان گنگا -جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے اور یہاں ہندو مسلم یکجہتی اور ہم آہنگی کی مثالیں کم نہیں ہیں۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں جب ہندو بہن نے مسلم بھائی کے ہاتھ پر راکھی باندھی اور مسلم بھائی نے اس کی حفاظت کا وعدہ پورا کیا۔ اس بار بھی راکھی کے تہوار پر متعدد ہندو بہنوں نے مسلم بھائیوں کے ہاتھوں پر راکھی باندھی ہیں اور سماج میں نفرت کا زہر گھولنے والوں کے منھ پر کرارا طمانچہ رسید کیا ہے۔

مسلم بھائیوں کے ہاتھوں پر ہندو بہنوں کی راکھیاں

سہارنپور کے ریائشی سابق مرکزی وزیر قاضی رشید مسعود گزشتہ 41 برس سے اپنی منہ بولی بہن سے راکھی بندھوا رہے ہیں۔ سنگیتا گنگوہ میں رہتی ہیں اور رشید مسعود ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی وہاں راکھی بندھوانے پہنچے۔ سنگیتا کہتی ہیں ، ’’دھرم کی دیوار بھائی بہن کے رشتہ سے بڑی نہیں ہو سکتی۔ وہ میرے سگے بھائی کی طرح ہیں۔‘‘

رشید مسعود کہتے ہیں، ’’مجھے سنگیتا سے راکھی بندھواتے ہوئے 41 سال ہو گئے ہیں۔ مذہب الگ ہے اور محبت الگ۔‘‘ مسعود اپنے قول پر ہمیشہ قائم بھی رہے ہیں کیوں کہ گزشتہ 41 برسوں میں کئی مواقع ایسے بھی رہے جب وہ وزیر کے عہدے پر فائز تھے لیکن انہوں نے اپنی منہ بولی بہن سے بلا ناغہ راکھی بندھوئی۔

رکشا بندھن ہندوستانی ثقافت کا ایک شاندار تہوار ہے، اس دن بہنیں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں پر ایک دھاگا باندھتی ہیں جسے رکشا سوتر (راکھی) کہا جاتا ہے، بدلے میں بھائی اپنی بہن کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے۔ ششانک شرما کہتے ہیں، ’’ہندو بہن کی حفاظت کا وعدہ اگر مسلم بھائی کرے تو انسانیت کے ساتھ ہندوستانی ثقافت کو بھی بلندی حاصل ہوتی ہے۔‘‘

مسلم بھائیوں کے ہاتھوں پر ہندو بہنوں کی راکھیاں

محمد عمر ایڈوکیٹ کے مطابق تاریخ میں اسے لے کر ایک کافی مشہور واقعہ ہے۔ ’’رانی کرناوتی نے مغل بادشاہ ہمایوں کو راکھی بھیج کر ان سے حفاظت کرنے کو کہا تھا۔ حالانکہ ان کا سفیر جب تک راکھی لے کر پہنچا رانی کے محل پر حملہ ہو چکا تھا۔ ‘‘

سہارنپور کے بہٹ میں اپنی بہن نشی سنگل سے راکھی بندھوانے والے شیخ پرویز کہتے ہیں ’’رکشا بندھن ایک بہترین تہوار ہے اور مذہب اس کے آڑے نہیں آتا۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس کو قومی تہوار قرار دے دینا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ بڑے پیمانے پر تقاریب کا انعقاد ہو اور ہندو بہنیں مسلم بھائیوں کے ہاتھوں پر راکھی باندھیں۔ یہ تصور اگر حقیقت بن جائے تو قومی اتحاد کو تقویت ملے گی۔ ‘‘

کئی مقامات پر مسلم بھائیوں کے گھروں پر ہندو بہنوں نے پہنچ کر راکھی باندھی۔ سہارنپور کے محلہ قاضی میں فہد عالم کے ہاتھ پر ان کی بہن سپنا سینی راکھی باندھنے پہنچی اور مظفرنگر کے میرانپور میں نظیر حیدر بہن شالو گپتا سے راکھی باندھونے کے لئے بجنور سے تشریف لائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */