سعودی عرب بمقابلہ روس اور تیل کی قیمتوں کی جنگ

تیل پیدا کرنے والی دو بڑی طاقتوں سعودی عرب اور روس نے وسیع مالی وسائل جمع کر لیے ہیں جو انہیں تیل کی قیمتوں کی طویل جنگ لڑنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ میں کون پہلے ہار مانتا ہے۔

سعودی عرب بمقابلہ روس اور تیل کی قیمتوں کی جنگ
سعودی عرب بمقابلہ روس اور تیل کی قیمتوں کی جنگ
user

ڈی. ڈبلیو

سعودی عرب نے خام تیل کی قیمت کم کرنے کے ساتھ یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ اس کی پیداوار میں اضافہ کر دے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں ایک تہائی گر گئی تھیں۔ دونوں ملکوں کی سرکاری آئل کمپنیوں سعودی آرامکو اور روسنیفٹ کے شیئرز بھی بری طرح نیچے گرے۔

دنیا کے ان دو بڑے تیل برآمد کنندگان نے کسی بھی 'معاشی جھٹکے‘ سے بچنے کے لیے تقریبا پانچ پانچ سو بلین ڈالر کے ذخائر جمع کر لیے ہیں۔ پیر کے روز ماسکو حکام کا کہنا تھا کہ اگر تیل کی قیمتیں فی بیرل پچیس سے تیس ڈالر تک بھی گر جائیں تو بھی وہ چھ سے دس برس تک اس کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔

روسی ذرائع کے مطابق روس تیس ڈالر فی بیرل برداشت تو کر سکتا ہے لیکن اسے خام تیل سے ہونے والی آمدنی کا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے مزید خام تیل فروخت کرنا پڑے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ جنگ جتنی طویل ہوتی جائے گی، دونوں ملکوں کو نقصان بھی اتنا زیادہ ہو گا اور انہیں مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔ تاہم دوسری جانب ان دونوں ممالک کی اس کشمکش سے فائدہ پاکستان جیسے ان ممالک کو ہو گا، جو خام تیل کے خریدار ہیں۔

اس مسئلے سے آگاہی رکھنے والے ذرائع کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تیل کی پیداوار بڑھانے کا حکم اس وقت دیا، جب روس نے خام تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کی اس تجویز کو مسترد کیا، جس میں کورونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لیے پیداوار میں کمی لانے کی تجویز دی گئی تھی۔

روس کے مقابلے میں سعودی عرب کے پاس بھی زرمبادلہ کے تقریبا پانچ سو ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کی سالانہ معاشی ترقی کے حساب سے یہ ذخائر تقریبا پچیس فیصد بنتے ہیں اور سعودی عرب مزید مالی قرضے حاصل کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے۔ سعودی عرب سن دو ہزار سولہ کے بعد سے تیل کی کم قیمتوں کے اثرات محدود کرنے کے لیے ایک سو ارب ڈالر سے زائد کے قرضے حاصل کر چکا ہے۔

ماسکو ایکسچینچ سپروائزری بورڈ کے سربراہ اولیگ ویوگن کا کہنا ہے کہ اس 'تیل کی جنگ‘ میں روس میں نہ صرف افراط زر کی شرح بڑھ جائے گی بلکہ شرح سود میں بھی اضافہ یقینی ہے۔ دوسری جانب میکرو ایڈوائزری کنسٹلنسی کے ڈائریکٹر کرس ویفر کا کہنا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ماسکو اوپیک کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کر لے لیکن ایسا شاید موسم خزاں کے بعد ہی ہو۔ تب تک تیل کی قیمتیں کم ہی رہنے کی توقع ہے۔

ا ا / ع ت (روئٹرز)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔