جس بیٹے کی بھیڑ نے جان لے لی اس کے ریزلٹ نے والد کو رلا دیا

مغربی بنگال کی ایک مسجد کے امام مولانا امداد الرشیدی کے 16 سالہ بیٹا صبغۃ اللہ گزشتہ 21 مارچ کو موب لنچنگ کا شکار ہوا تھا اس کا میٹرک کا نتیجہ بدھ کے روز جاری ہوا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مغربی بنگال میں رام نومی کے موقع پر شدت پسند ہندوؤں کے ذریعہ 16 سالہ مسلم لڑکا صبغۃ اللہ کو جان سے مارے جانے کا معاملہ سامنے آیا تھا اور پھر اس کے والد مولانا امداد الرشیدی نے جس طرح سے ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے مسلم طبقہ سے مشتعل نہ ہونے اور بیٹے کی موت کا بدلہ نہ لینے کی اپیل کی تھی، اس کی چہار جانب تعریف بھی ہوئی تھی۔ اس وقت اس خبر نے بھی سرخیاں بٹوری تھیں کہ صبغۃ اللہ نے میٹرک کا امتحان دیا تھا اور زندگی میں کچھ اچھا کرنے کے لیے پرعزم تھا۔ 6 جون یعنی بدھ کے روز صبغۃ اللہ کا ریزلٹ جاری ہوا جس میں اس نے تقریباً 58 فیصد نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ اس ریزلٹ کو دیکھ کر مولانا امداد الرشیدی کی آنکھیں نم ہو گئیں اور انھوں نے کہا کہ ’’میرا بیٹا انجینئر بننا چاہتا تھا۔ اس کا خواب اس کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔ لیکن اب میں ان اسٹوڈنٹس کی مدد کروں گا جن کے خواب کسی وجہ سے پورے نہیں ہو پاتے۔‘‘

صبغۃاللہ نے گزشتہ 21 مارچ کو آخری امتحان بایالوجی کا دیا تھا جو اس کا ایکسٹرا سبجیکٹ تھا۔ اس کے ایک ہفتہ بعد یعنی 28 مارچ کو اس کی لاش آسنسول میں اسی مسجد کے قریب سے ہی ملی تھی جہاں اس کے والد مولانا امدادالرشیدی امامت کرتے ہیں۔ صبغۃ اللہ کے گھر والوں کو اس کے دوستوں اور اساتذہ نے بتایا تھا کہ بدھ کے روز نتیجہ آنے والا ہے اور صبغۃ اللہ کے بڑے بھائی عطاء اللہ نے اسمارٹ فون پر نتیجہ دیکھا جس میں اس کے 58 فیصد نمبرآئے تھے جو کہ مغربی بنگال بورڈ میں قابل قدر نمبر قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ ایک انگریزی نیوز ویب سائٹ کے مطابق صبغۃ اللہ کو انگریزی میں کافی دلچسپی تھی جس میں اس نے 61 نمبر حاصل کیے ہیں۔

مولانا امدادالرشیدی کے لیے اپنے مہلوک بیٹے کا ریزلٹ دیکھنا یقیناً جذباتی لمحہ تھا وہ اس کا اظہار کریں یا نہ کریں، ان کی آنکھیں سب کچھ ظاہر کر رہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’میرا بیٹا اب زندہ نہیں ہے۔ وہ ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتا تھا لیکن اپنے خوابوں کے بارے میں بہت زیادہ باتیں نہیں کرتا تھا۔ اب تو اس کے ساتھ ہی اس کے خواب بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئے۔‘‘ صبغۃ اللہ کے بڑے بھائی عطاء اللہ کا کہنا ہے کہ ’’ہم چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے۔ وہ ہماری باتیں سنتا تھا لیکن اپنی خواہشوں کا بہت زیادہ اظہار نہیں کیا کرتا تھا۔ وہ بس اتنا کہتا تھا کہ میں کچھ الگ کرنا چاہتا ہوں، بس آپ سب دیکھتے رہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */