میرٹھ کے خوفزدہ مسلمان گھر بیچنے پرمجبور، گھروں کے باہر لگایا پوسٹر

میرٹھ کے لساڑی گاؤں میں مقیم کچھ مسلمانوں نے اپنے گھروں کے باہر مکان فروخت کرنے کا پوسٹر لگایا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں چھوٹی چھوٹی بات پر تنازعہ ہو جاتا ہے اس لیے دوسری جگہ منتقل جائیں گے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

گزشتہ 21 جون کو میرٹھ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد یہاں کے کئی مسلم خاندان پریشان ہیں اور انھوں نے اس شہر سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ معاملہ میرٹھ کے لساڑی گاؤں کا ہے جہاں 20 مسلم فیملی نے اپنے گھر کے باہر ’یہ مکان بکاؤ ہے‘ کا پوسٹر چسپاں کر دیا ہے۔ ساتھ ہی پوسٹر پر یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’’میں مسلمان ہوں۔ میں اپنا مکان فروخت کر رہا ہوں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے تنازعہ کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے۔‘‘ یہ پوسٹر گزشتہ 27 جون یعنی بدھ کے روز دیواروں پر چسپاں نظر آیا جس کے بعد ان مسلم فیملی کی حمایت کرتے ہوئے کئی دیگر مسلمانوں نے بھی یہاں سے ہجرت کرنے کی بات کہی ہے۔ اس طرح اجتماعی ہجرت کی بات سامنے آنے کے بعد علاقے کی پولس انتظامیہ میں افرا تفری کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق لساڑی گاؤں میں مسلمانوں کے تقریباً 100 گھر ہیں جو 21 جون کے واقعہ کے بعد خوفزدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انھیں انصاف نہیں ملا تو وہ یہاں سے اپنا گھر چھوڑ کر کہیں دوسرے علاقے میں پناہ لینے کے لیے مجبور ہوں گے۔ اس اعلان کے بعد پولس حرکت میں آ گئی ہے اور افسران کا کہنا ہے کہ اگر کسی کو پریشان کیا جا رہا ہے تو انھیں انصاف دلایا جائے گا لیکن غلط بات کی حمایت کبھی نہیں کی جائے گی۔

دراصل یہ پورا معاملہ میرٹھ شہر سے ملحق لساڑی کے باشندہ جانی اور اس کے بھائی آکاش کی مٹھائی کی دکان سے تعلق رکھتا ہے جو کہ گاؤں میں ہی ہے۔ 21 جون کو جانی اور آکاش دونوں اپنے ملازم اتل اور نارائن کے ساتھ دکان پر موجود تھا۔ ان دونوں بھائیوں کا الزام ہے کہ گاؤں کے چاند اور خالد کی موٹر سائیکل ان کی بھٹی سے ٹکرا گئی جس کے بعد انھوں نے بھٹی پر لات مار دی تھی۔ آکاش کے مطابق اس وقت دونوں وہاں سے بھگا دیے گئے لیکن کچھ دیر بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ دکان پر پہنچ کر توڑ پھوڑ کی اور 40 ہزار روپے لوٹ کر فرار ہو گئے۔ اس معاملے میں جانی نے چاند، سرفراز، ادریس، سمیع، گاندھی، سمیر، خالد اور کئی دیگر نامعلوم اشخاص کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جس کے بعد چاند اور گاندھی کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ دوسری طرف مسلم طبقہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں پولس انتظامیہ ان کی نہیں سن رہی اور مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی ہو رہی ہے۔ انہی معاملات سے ناراض ہو کر مسلم خاندانوں نے اپنے گھروں کے باہر مکان فروخت کرنے سے متعلق پوسٹر چسپاں کر دیا ہے۔

حاجی نور سیفی، حاجی گل محمد، سعید الدین، رئیس الدین، حنیف، علاء الدین، اور جان محمد وغیرہ کا کہنا ہے کہ گاؤں میں ذرا ذرا سی بات پر تنازعہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولس یکطرفہ کارروائی کرتی رہی ہے اور 21 جون کے معاملہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ پولس نہ تو ان کی کوئی تحریر لے رہی ہے اور نہ ہی ان کی کوئی بات سن رہی ہے۔ مسلم طبقہ نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ اب وہ گاؤں میں نہیں رہیں گے، مکان فروخت کر کے یہاں سے چلے جائیں گے۔

پولس انتظامیہ نے حالانکہ اس پورے معاملے کی جانچ کرنے اور انصاف دلانے کا بھروسہ دلایا ہے لیکن مسلم طبقہ میں ان پر بھروسہ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ ایک ہندی نیوز ویب سائٹ نے اس سلسلے میں جب ایس پی سٹی رنوجے سنگھ سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’’معاملے کی جانچ کی جائے گی اور جو بھی قصوروار ہوگا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ کسی کو ہجرت کرنے نہیں دیا جائے گا۔ دونوں فریق کو انصاف دلایا جائے گا۔‘‘ اس معاملے میں ایک دیگر نیوز ویب سائٹ کو ایس ایس پی راجیش کمار پانڈے نے بتایا کہ یہ دو فرقہ کے درمیان تنازعہ ہے جس میں غلطی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہجرت کرنے جیسی کوئی بات نہیں بلکہ کچھ لوگ پولس کی کارروائی سے بچنے کے لیے اپنا گھر چھوڑ رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔