کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ آزادیء اظہار رائے کو محدود کر رہی ہے؟

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے ناقد صحافیوں کی مختلف میڈیا کے اداروں سے برطرفی سے ایک بار پھر یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ ملک کے ’طاقتور حلقے‘ آزادی اظہارِ رائے کو محدود بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں وقت ٹی وی کے اینکر اور نوائے وقت کے کالم نگار مطیع اللہ جان کو نوائے وقت گروپ کی طرف سے نوکری سے فارغ کیا گیا۔ صحافی نصرت جاوید کو ڈان نیوز چھوڑنا پڑا جب کہ اینکر و تجزیہ نگار مرتضیٰ سولنگی کو بھی کپیٹل ٹی وی کو خیر باد کہنا پڑا۔ اب خبریں یہ ہیں کہ جیو نیوز کے معروف اینکر پرسن طلعت حسین بھی اپنے چینل کو چھوڑ رہے ہیں۔ ان صحافیوں کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر اپنے ادارے چھوڑنے پڑے لیکن ناقدین کے خیال میں ان چاروں کے درمیان قدرِ مشترک جمہوری نظام کی حمایت اور ملک کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ پر تنقید تھی، جس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔


معروف صحافی مطیع اللہ جان کے خیال میں پاکستان میں آزادی ء اظہارِ رائے کے مواقع سکڑتے جارہے ہیں، ’’میرے خیال میں طاقتور حلقے ملک میں کوئی اسٹرکچرل تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں، جس کے تحت یا تو سیاست دانوں کو بالکل فرمانبردار بنا لیا جائے گا یا پھر وہ غیر ضروری ہو جائیں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ آزاد میڈیا کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے تنقید کرنے والی آوازوں کو دبایا جارہا ہے۔‘‘
مارشل لاء کے دور میں پاکستان کے صحافیوں نے بڑی قربانیاں دی اور جبر کا مقابلہ بھی کیا لیکن مطیع اللہ جان کے خیال میں اب پاکستانی صحافت میں طاقت ور حلقوں کی طرف سے کئی افراد کو نوکریاں دلوائی گئیں ہیں،’’ان میں ایک بڑی تعداد اینکرز کی ہے، جن کا کام صرف سیاست دانوں کو گندہ کرنا ہے اور صحافیوں کی ساکھ کو خراب کرنا ہے۔ صحافیوں میں کئی غیر صحافی افراد آ گئے ہیں، جو مختلف اداروں کے لئے کام کرتے ہیں۔ صحافی تنظیموں میں یکجہتی کے فقدان نے بھی صحافی برادری کو نقصان پہنچایا ہے۔ صحافتی تنظیمیں علامتی طور پر احتجاج کرتی ہیں اور وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتیں ۔‘‘


مطیع اللہ جان میڈیا مالکان سے بھی نالاں ہیں۔ ان کے خیال میں ان کی ترجیح صحافت نہیں کاروبار ہے،’’میڈیا ہاوسز کے مالکان موجودہ صورتِ حال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مالی بحران کا بہانہ کر کے کارکنان کو نکال رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک میڈیا گروپ کے مالک نے ایک طرف ایک سو پچاس کارکنان کو نکالا اور دوسری طرف ایک ایئر لائن کا لائسنس بھی لے لیا۔ اگر ادارہ نقصان میں ہے تو ایئر لائن کیسے چل سکتی ہے؟ تو ملک میں ایک عجیب صورتِ حال ہے کہ ایک طرف تو مختلف بزنس گروپ میڈیا کی طرف آرہے ہیں جب کہ دوسری طرف میڈیا مالکان دوسرے کاروباروں کی طرف جا رہے ہیں۔ اس لئے کچھ قوتوں کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ اپنے ناقدین کو فارغ کرائیں۔ اس ساری صورتِحال کے پیشِ نظر میں دیکھ رہا ہوں کہ آنے والا وقت پاکستان میں آزادیء اظہار رائے کے لئے مزید سخت ہوگا۔‘

لیکن کچھ ناقدین کے خیال میں پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر پابندی لگ نہیں رہی بلکہ لگ چکی ہے اور سلیف سینسرشپ اپنے عروج ہے۔ معروف صحافی اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیاء الدین کے خیال میں اس سینسر شپ کے پیچھے پی ٹی آئی نہیں ہے،’’میر ے خیال میں پی ٹی آئی اس کے پیچھے نہیں ہے کیونکہ ان کی پارلیمنٹ میں طاقت کم ہے اور وہ کمزور بھی ہے۔ یہ صورتِ حال دراصل مطلق العنان سوچ کی عکاس ہے، جو ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ پہلے جیو اور ڈان کو سبق سکھایا گیا اور اب رہی سہی آزادی بھی ختم کی جا رہی ہے۔‘‘
ماضی میں پاکستانی پارلیمنٹ سے کچھ آوازیں صحافیوں کے لئے آجاتی تھیں لیکن صحافی تنظیموں کا شکو ہ ہے کہ پارلیمنٹ بھی اس مسئلے پر خاموش ہے۔ تاہم ایوان بالا سینیٹ کے رکن اور معروف سیاست دان سینیٹر حاصل بزنجو کے خیال میں ایسا تاثر صحیح نہیں ہے،’’میں نے پارلیمنٹ میں دو مرتبہ اس مسئلے پر بات کی لیکن خود میڈیا اس کو کوریج نہیں دیتا۔ جب کراچی پریس کلب پر نامعلوم افراد نے آ کر صحافیوں کو ہراساں کیا، تو میں نے ان سے اظہارِ یکجہتی کی۔ تو
پارلیمنٹ ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار ہے لیکن وہ کوئی پریس کانفرنس تو کریں، کوئی احتجاج یا جلسہ تو کریں۔ ہم بالکل ان کے ساتھ ہوں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔