کرناٹک میں بی جے پی کی گرتی ساکھ کا مطلب اس کے لئے جنوب کا دروازہ بند

کرناٹک میں بی جے پی کو کھڑا کرنے والے یدی یورپا کو اب ریاست کی سیاسی جنگ میں لنگڑے گھوڑے کی طرح دیکھا جا رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

کرناٹک کو بی جے پی کے لئے جنوبی ہندوستان کا دروازہ کہا جاتا تھا اب جس طرح کے سیاسی حالات وہاں کروٹ لے رہے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کے لئے یہ دروازہ بھی جلد بند ہو جائے گا۔ لوک سبھا کی 3 اور اسمبلی کی 2 سیٹوں پر نومبر کی شروعات میں ہوئے ضمنی انتخابات میں ملی شکست نے بی جے پی کے لئے نئے سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات کے بعد بی جے پی کے ریاستی سربراہ بی ایس یدی یورپا پر انگلی اٹھنی شروع ہو گئی ہے۔ ان ضمنی انتخابات میں شموگا سیٹ سے یدی یورپا کے بیٹے جتنے کم فرق سے کامیاب ہوئے ہیں اس نے بھی یدی یورپا کو کمزور کیا ہے۔

مانا یہ جا رہا تھا کہ کرناٹک بی جے پی کے بڑے رہنما اننت کمار کے انتقال کے بعد یدی یورپا کے خلاف ریاست میں کوئی آواز نہیں اٹھائے گا لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی قیادت سوالوں کے گھیرے میں ہے اور جس کا دباؤ ان پر بہت ہے۔ بی جے پی کے رہنما ضمنی انتخابات میں شکست کے علاوہ کانگریس۔جنتا دل ایس حکومت کو گرانے کی ناکام کوشش کا ٹھیکرا بھی یدی یورپا کے سر پھوڑ رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرناٹک میں بی جے پی کو کھڑا کرنے میں ان کا بہت اہم کردار رہا ہے لیکن اب ان کو ایک لنگڑ ے گھوڑے کی طرح دیکھا جا رہا ہے۔ ریاستی بی جے پی کے ایک بڑے طبقہ میں ان کو بی جے پی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

بی جے پی کے لئے کرناٹک میں سب سے بڑا جھٹکا بلاری سیٹ سے ریڈی کی شکست ہے اور اس کو ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ریڈی بھائیوں کو بی جے پی کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا تھا۔ ضمنی انتخابات میں ریڈی کی شکست نے بی جے ہی کے دعووں کو کھوکھلا ثابت کر دیا ہے۔ بی جے پی کی اعلی قیادت کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ حال میں کرناٹک میں جو کچھ ہوا ہے اس کا سیدھا اثر عام انتخابات پر پڑنے والا ہے۔ اب کسی بھی صورت میں نہیں لگتا کہ بی جے پی ریاست میں اچھا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ ان تبدیلیوں سے واضح ہے کہ بی جے پی کے لئے جنوب کا دروازہ بھی بہت جلد بند ہونے والا ہے۔ کرناٹک میں کانگریس کی واپسی نے مرکز میں اس کی واپسی کے لئے راستے ضرور کھول دیئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Nov 2018, 10:09 AM
/* */