جی ایس ٹی بقایہ روکنا وفاقی نظام کی خلاف ورزی: کانگریس

پڈوچیری کے وزیر اعلیٰ نارائن سامی نے کہا کہ گزشتہ برس ستمبر سے ریاستوں کو جی ایس ٹی کی بقایہ رقم کی بہ ضابطہ ادائیگی نہیں کی جا رہی ہے۔ رواں برس مارچ کے بعد کوئی ادائیگی انھیں نہیں کی گئی ہے۔

کانگریس، تصویر یو این آئی
کانگریس، تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی: کانگریس نے اشیاء اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کی بقایا کی ادائیگی روکنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستوں کو ان کے حصے کا پیسہ ملنا، ان کا جمہوری حق ہے اور مرکزی حکومت کو اس پر پابندی لگانے کا حق نہیں ہے پڈوچیری کے وزیر اعلیٰ وی نارائن سامی، چھتیس گڑھ کے وزیر خزانہ ٹی ایس سنگھ دیو، پنجاب کے وزیر خزانہ منپریت سنگھ بادل نے جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ کے بعد جمعرات کو یہاں خصوصی پریس کانفرنس میں کہاکہ نصف سے زیادہ وقت تک میٹنگ میں ریاستوں کے بقایہ رقم کی ادائیگی کا مسئلہ چھایا رہا۔ تمام غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کے وزراء نے اس مسئلے کو شدومد سے اٹھایا اور مرکز کو ان کے مطالبے پر غور و خوض کرنے کے لیے حامی بھرنے پربے بس ہونا پڑا۔

نارائن سامی نے کہا کہ گزشتہ برس ستمبر سے ریاستوں کو جی ایس ٹی کی بقایہ رقم کی بہ ضابطہ ادائیگی نہیں کی جا رہی ہے۔ رواں برس مارچ کے بعد کوئی ادائیگی انھیں نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی ایس ٹی میٹنگ میں کافی بحث کے بعد مرکز کے چار ماہ کے بقایا ادا کرنے کے سلسلے میں غور و خوض کرنے پر متفق ہوئے لیکن کہا کہ اس بارے میں ایک ہفتے میں طے کیا جائے گا کہ کس طرح کا آپشن نافذ کیا جا سکتا ہے۔


پنجاب کے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ محصولات کے سکریٹری نے میٹنگ میں کہا کہ کورونا وائرس کے سبب مرکزی حکومت اپنے محصولات اکٹھا نہیں کر سکی ہے۔ محصولات سکریٹری کے اس بیان کے باوجود ریاستی حکومتوں اور بالخصوص غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کے نمائندوں نے نقصان کی تلافئی کے مسئلے کو زور و شور سے اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں جو فیصلہ ہوا اسے وہ اپنی حکومت کے سامنے رکھیں گے اور اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ تین چار سال میں لاکھ کروڑ روپیے مرکز نے پٹرولیم وغیرہ کے ذریعے ریاستوں سے حاصل کیا لہٰذا اسے ریاستوں کا بقایا دینا چاہیے۔

سنگھ دیو نے کہا کہ جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد ریاستوں کے پاس مالی وسائل نہیں رہے اور ریاستی حکومتیں جی ایس ٹی کے بعد اپنے محصولات کے لیے پوری طرح مرکز پر منحصر ہیں۔ جی ایس ٹی سے ریاستوں کا مالی حقوق ختم ہو گئے اور تمام حقوق مرکز کے پاس چلے گئے ہیں۔ جی ایس ٹی سے چھتیس گڑھ جیسی پیدواری ریاستوں کو نقصان ہوا ہے جبکہ صارف ریاستوں کو فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میٹنگ میں مرکزی حکومت کا رویہ زبردست اکثریت والی حکومت کے تکبر میں ڈوبی ہوا لگتا ہے اور وہ وفاقی نظام کے ساتھ کھلواڑ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اکثریت ہونے کے تکبر میں جی ایس ٹی کا حصہ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن مرکزی حکومت یہی کام کر رہی ہے۔ رواں برس مارچ تک کا سیس اس نے شیئر کر دیا ہے لیکن جی ایس ٹی بقایا روکا لی گئی ہے۔


سنگھ دیو نے کہا کہ میٹنگ میں اس طرح کی دھمکی کا احساس کروایا گیا کہ مرکزی حکومت، ریاستوں کی بات نہیں مانے گی اور وہ اپنے حساب سے نقصان کی تلافی کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستوں کے حقوق چھین کر انھیں نقصان کی بھرپائی نہ کرنا وفاقی ڈھانچے کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ پانچ برس کے لیے جی ایس ٹی کے تحت 14 فیصد نقصان کی تلافی کا انتظام اس امید سے کیا گیا تھا کہ اس کے بعد ریاست اہل ہوں گے اور انھیں نقصان کی تلافی کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن جو ملک کے معاشی حالات ہیں اس کے پیش نظر اسے پانچ سال کے لیے مزید بڑھایا جانا ضروری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔