نریندر مودی کا اقتدار سے باہر جانا کیوں ضروری ہے!... ظفر آغا

گاندھی جی کا سیاسی نظریہ بنیادی طور پر دو اصولوں پر مبنی تھا۔ وہ ’ستیہ‘ یعنی سچ اور ’اہنسا‘ یعنی غیر تشدد میں مستحکم یقین رکھتے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

کانگریس صدر راہل گاندھی نے پچھلے ہفتے آئندہ لوک سبھا چناؤ کے تعلق سے ایک بہت دلچسپ بات کہی۔ راہل گاندھی کے بقول سنہ 2019 کے لوک سبھا چناؤ گاندھی اور ساورکر کے نظریاتی تصادم کا چناؤ ہے۔ یوں تو عموماً چناؤ کا مقصد ایک نئی حکومت تشکیل دینا ہوتا ہے۔ اگلے لوک سبھا چناؤ کے بعد بھی ایک نئی حکومت برسراقتدار آئے گی۔ لیکن اس چناؤ کے جو نتائج آئیں گے وہ محض ایک نئی حکومت ہی نہیں قائم کریں گی بلکہ یہ بھی طے کریں گی کہ آیا ہندوستان وہ ہندوستان رہے گا جو صدیوں سے گنگا جمنی ہندوستان تھا یا پھر وہ ویر ساورکر کے ہندوتوا نظریات پر مبنی ایک نیا ہندو راشٹر ہوگا۔ راہل گاندھی نے پچھلے ہفتے احمد آباد میں اپنی تقریر کے دوران اسی خطرے سے آگاہ کیا تھا اور ہندوستانی ووٹر کو یاد دلایا تھا کہ اگلا چناؤ گاندھی اور ساورکر کے نظریاتی تصادم کا انتخاب ہوگا۔ لیکن گاندھی اور ساورکر کے نظریات میں بنیادی فرق کیا تھا۔

گاندھی جی کا سیاسی نظریہ بنیادی طور پر دو اصولوں پر مبنی تھا۔ وہ ’ستیہ‘ یعنی سچ اور ’اہنسا‘ یعنی غیر تشدد میں مستحکم یقین رکھتے تھے۔ گاندھی جی کا ماننا تھا کہ یہی دو اصول ہر مذہب کی بنیاد ہوتی ہیں اور ہندوستانی تہذیب صدیوں سے انہی اصولوں پر دائم و قائم ہے۔ یہی سبب ہے کہ صدیوں سے ہندوستان کا دامن ہر مذہب، ہر نظریہ اور ہر کلچر کے لیے کھلا رہا۔ تب ہی تو یہاں کبھی آریہ ہندو مت کے ساتھ تو کبھی گوتم بودھ مت کے ساتھ تو کبھی صوفی اسلام کے ساتھ، اسی طرح ایرانی پارسی یقین کے ساتھ تو کبھی گرونانک سکھ عقیدے کے ساتھ ہندوستان کی زمین میں رچتے بستے چلے گئے۔ اور اس طرح ہندوستانی دامن کی وسعت سے جس تہذیب نے جنم لیا وہ ایک گنگا جمنی تہذیب تھی جس میں رنگا رنگ نسل، عقائد، کھانے پینے، سنگیت، زبان و ادب اور کلچر رچا بسا تھا۔ اور ان تمام اختلاف کے ساتھ ان تمام عناصر میں ایک یگانگت بھی جنمی جو ہندوستان کو استحکام بھی عطا کرتی تھی۔ چونکہ اتنے مختلف عناصر کے رنگ رنگ میں ڈوبی تھی اور آج بھی ڈوبی ہے کہ اس تہذیب میں تشدد کی کوئی گنجائش ہی ممکن نہیں ہے۔ تب ہی تو صدیوں سے یہ تہذیب دائم و قائم ہے اور آج بھی برقرار ہے۔ علامہ اقبال نے ہندوستان کی اسی تہذیبی عظمت کا ذکر اپنی مشہور نظم ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ میں یوں کیا:

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

گاندھی جی بھی ہندوستانی تہذیب کی انہی قدروں میں یقین رکھتے تھے۔ اسی لیے وہ ہر مذہب کو ’ستیہ‘ تک پہنچنے کا ایک راستہ سمجھتے تھے۔ ان کے لیے ہر مذہب کا راستہ الگ ہو سکتا ہے لیکن ہر مذہب بنیادی طور پر ایک ہی ستیہ پر پہنچتا ہے جو انسانی بقا اور آپسی ہم آہنگی کا ستیہ ہے۔ اسی لیے گاندھی جی کے نزدیک ’ایشور، اللہ تیرو نام‘ ہو جاتے تھے۔ چونکہ بنیادی طور پر ہر عقیدہ کا مقصد امن و آشتی ہے اسی لیے گاندھی جی غیر تشدد میں پکا یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آزادی کے بعد ہندوستانی آئین تشکیل ہوا تو اس میں ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب اور گاندھیائی نظریہ اور قدروں کا بدرجہ اتم امتزاج تھا۔ تب ہی تو ہر عقیدے، رنگ و نسل و صنف کے انسان کو آزاد ہندوستان میں برابری کے حقوق ملے۔ اس آئین اور نظریہ کے تحت آزاد ہندوستان میں ہر عقیدہ کو برابری ملی۔

اس کے برخلاف ویر ساورکر کا ہندوتوا عقیدہ ہندوستان میں ایک نئی تہذیب و ایک نئی سیاست پر مبنی ہے۔ ساورکر کے مطابق ہندوستان پر اکثریت یعنی ہندوؤں کا پہلا حق ہے۔ باقی تمام اقلیتیں بالخصوص مسلمان اور عیسائی دوسرے درجے کے شہری ہونے چاہئیں۔ یعنی ساورکر کے نظریہ پر مبنی سَنگھ نے ہندو راشٹر کا نظریہ پیش کیا جو بی جے پی کا آج ہندوتوا نظریہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نظریہ پر مبنی ہندوستان کی تشکیل تشدد کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے۔ اور بی جے پی اس میں یقین بھی رکھتی ہے تب ہی تو وہ بابری مسجد کا واقعہ ہو یا گجرات میں 2002 میں ہونے والی مسلم نسل کشی یا پھر حالیہ مسلمانوں کی ’موب لنچنگ‘، ان میں سے کسی بات پر بھی بی جے پی نادم نہیں ہے۔

نریندر مودی اسی ہندوتوا میں رچے بسے وہ پہلے مقبول وزیر اعظم ہیں جو ہندوستان کو اسی خد و خال میں ڈھالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ خودکو ہندوتوا کا کمانڈر سمجھتے ہیں اور ہندوستان کو باقاعدہ ایک ہندو راشٹر بنانے میں مصروف ہیں۔ وہ پچھلے پانچ برسوں میں ہندوستان کو ہندو راشٹر کے دروازے تک پہنچا چکے ہیں۔ اگر مودی راج پر نگاہ ڈالیے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں میں جس طرح کا خوف پیدا کیا گیا اس سے مسلمان نفسیاتی طور پر خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کرنے لگے۔ لیکن ہندوتوا محض مسلم دشمن ہی نہیں ہے۔ اس نظریہ میں پسماندہ اور دلت ہندو ذاتوں کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں ان طبقوں اور بالخصوص دلتوں پر بھی قہر ٹوٹا۔ پھر کشمیر سے کنیا کماری تک جس پرتشدد طور پر بی جے پی نظریہ کی یکسانیت کو تھوپا گیا اس سے کشمیر، آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں کم و بیش بغاوت پھوٹ پڑی۔ کیونکہ مودی جس ہندوتوا میں یقین رکھتے ہیں اس میں تشدد کا راستہ صاف ہے اس لیے کشمیر سے لے کر دوسری جگہوں پر تشدد کا استعمال بھی ہوا۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس راستہ پر چل کر ہندوستان کی وہ جغرافیائی شکل و صورت برقرار نہیں رہ سکتی ہے جو اب ہے۔ کیونکہ جنوبی ہندوستان اور شمالی ہندوستانی ریاستوں پر اگر بہت عرصے تک یہ نظریہ تھوپنے کی کوشش کی گئی تو وہ ہندوستان سے ناطہ توڑ سکتی ہیں۔ پھر ہندوستانی دوسری سب سے بڑی آبادی مسلمان کو ہمیشہ ہمیشہ خوف سے دبا کر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر مودی دوسری بار ہندوستان کے وزیر اعظم بنتے ہیں تو پھر وہ تشدد کے ساتھ اس ملک پر ساورکر کا ہندوتوا تھوپیں گے۔ اور یہ محض اس ملک کی اقلیت کے ہی حق میں نہیں ہوگا بلکہ اس سے ملک کی سالمیت کے حق میں بھی نہیں ہوگا۔

اس لیے نریندر مودی کو سنہ 2019 لوک سبھا چناؤ کے ذریعہ اقتدار سے باہر جانا ہی چاہیے تاکہ ہندوستان کو ایک بار پھر سے گاندھیائی نظریہ پر اس کی گنگا جمنی تہذیب کے نہج پر واپس لایا جائے۔ اور یہ کام ناممکن نہیں ہے۔ کیونکہ مودی کو سنہ 2014 میں اپنے عروج پر محض 31 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ بقیہ اپوزیشن کو 69 فیصد ملے تھے۔ اس لیے اگر کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن متحد ہو جائے تو مودی کو ہرایا جا سکتا ہے۔ اور یہ کام ناممکن نہیں۔ اس لیے امید نہ چھوڑیں اور عقلمندی سے ووٹ کی طاقت کے ذریعہ ہندوستان پر لہرا رہے ہندوتوا کے خطرے کو اپنے ووٹ کے ذریعہ ٹالنے کی کوشش کیجیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔