اتر پردیش: ایک ہی خاندان کے 5 افراد کا ہتھوڑے سے قتل، واردات سے سہمے لوگ

اتر پردیش میں حمیر پور ضلع ہیڈ کوارٹر کے رانی لکشمی بائی محلہ میں جمعرات کی شب ایک ہی فیملی کے پانچ لوگوں کا ہتھوڑے سے کچل کر قتل کر دیا گیا۔ پولس افسر اس واقعہ کا سبب آپسی رنجش بتا رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

اتر پردیش میں حمیر پور ضلع ہیڈ کوارٹر کے رانی لکشمی بائی محلے میں جمعرات دیر شام ایک ہی فیلی کے 5 لوگوں کے قتل سے ہنگامہ برپا ہے۔ اے ایس پی سنتوش کمار سنگھ نے جمعہ کے روز اس تعلق سے کہا کہ ’’اب تک کی جانچ میں آپسی رنجش اس واقعہ کی وجہ معلوم پڑ رہی ہے۔ پھر بھی کئی نکات کو سامنے رکھ کر تحقیقات کی جا رہی ہے۔‘‘

اے ایس پی سنتوش کمار سنگھ نے بتایا کہ نور بخش نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی اور اس کا بیٹا-بہو کالپی روڈ کے دوسرے گھر میں رہ رہے ہیں۔ نور بخش دوسری بیوی اور اس کے بیٹے-بہو کے ساتھ رانی لکشمی بائی محلے میں رہ رہا ہے۔ نور بخش ریٹائر فورتھ گریڈ ملازم ہے۔ ملکیت کو لے کر اکثر فیملی میں تنازعہ ہوتا رہتا تھا۔


اے ایس پی کے مطابق ’’واقعہ کے وقت نور بخش اور اس کی دوسری بیوی ایک شادی کی تقریب میں گھر سے باہر تھے۔ ان کے واپس آنے کے بعد واقعہ کا انکشاف ہوا۔ گھر میں لوٹ پاٹ جیسا کچھ نہیں تھا۔ بیٹا رئیس اور ماں سکینہ کی لاش پہلے دروازے کی گیلری میں، بہو روشنی اور پوتی عالیہ کی لاش بستر پر اور روشنی کے رشتہ دار کی لاش ایک کمرے میں پایا گیا ہے۔ سبھی کا قتل پتھر یا ہتھوڑے سے سر میں چوٹ پہنچا کر کی گئی معلوم ہوتی ہے۔ موت کی اصلی وجہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد پتہ چلے گی۔‘‘

ایس پی ہیم راج مینا نے واقعہ کے تعلق سے بتایا کہ حملہ آور نے ہتھوڑے کے ساتھ ساتھ پتھر سے کچل کر قتل کیا ہے۔ جائے واقعہ سے خون میں شرابور ہتھوڑا برآمد ہوا ہے۔ واردات کے پیچھے کسی قریبی کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ پولس افسر نے کہا کہ اب تک کی جانچ میں آپسی رنجش کے سبب واقعہ کو انجام دینے کی بات سامنے آئی ہے، لیکن پولس کئی نکات کو سامنے رکھ کر تحقیقات کر رہی ہے۔


بہر حال، اجتماعی قتل کا واقعہ حمیر پور میں پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ سال 2010 سے لے کر اب تک تین ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں پوری فیملی کو ختم کر دیا گیا۔ مارچ 2010 میں ہولی سے قبل تھانہ للپورا کے موراکاندر گاؤں میں جگدیش سنگھ کے پورے کنبے کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Jun 2019, 5:10 PM