یوپی انتخاب: دوسرے مرحلہ کی ووٹنگ میں ووٹرس کے رجحان نے سہ رخی مقابلے کو کیا مسترد!

دوسرے مرحلہ میں 9 اضلاع کی 55 سیٹوں پر ہوئی ووٹنگ کے بعد جو خبریں سامنے آ رہی ہیں اس کے مطابق بیشتر سیٹوں پر مقابلہ سماجوادی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان ہی دیکھنے کو ملے گا۔

علامتی تصویر، ٹوئٹر @IANSKhabar
علامتی تصویر، ٹوئٹر @IANSKhabar
user

ناظمہ فہیم

مراد آباد: یوپی اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 9 اضلاع کی 55 سیٹوں پر ہوئی ووٹنگ میں عوام نے حق رائے دہی کا استعمال بڑھ چڑھ کر کیا۔ مرادآباد ڈویژن کے 5 اضلاع کی 27 سیٹوں پر بھی رائے دہندگان نے خوب جوش دکھایا۔ سبھی سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں نے رات دن کی محنت سے عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی اور پارٹیوں کے لیڈران نے بھی اپنے اپنے انتخابی منشور کے ذریعہ عوام کو لبھانے کی کوشش کی۔ دوسرے مرحلے کی ووٹنگ میں بھی پہلے مرحلے کی طرح سماجوادی-آر ایل ڈی اتحاد و بی جے پی کے بیچ ہی مقابلہ نظر آ رہا ہے۔ اس مرحلے میں رائے دہندگان کی بیشتر رائے سائیکل اور کمل کے بٹن پر ہی رہی۔ کانگریس کا ہاتھ، بہوجن سماج پارٹی کا ہاتھی اور ایم آئی ایم کی پتنگ میں وہ جوش و خروش نہیں دکھا جس کی امید ظاہر کی جا رہی تھی۔

مراد آباد کی سبھی چھ سیٹوں پر67.30 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ رامپور میں چار سیٹوں کے لیے 63.97 فیصد ووٹ پڑے۔ سنبھل کی چار سیٹوں کے لئے 62.88 فیصد، امروہہ کی چار سیٹوں کے لیے 72.02 فیصد اور بجنور کی 8 سیٹوں کے لئے 66.73 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ کمشنری میں امروہہ ووٹ فیصد کے لحاظ سب سے آگے رہا۔ مراد آباد میں ٹھاکر دوارہ، کانٹھ اور کندرکی میں 70 فیصد سے زائد ووٹ ڈالے گئے جبکہ رامپور میں صرف سوار سیٹ پر 71 فیصد سے زیادہ ووٹ پڑے۔ اس سیٹ پر سماجوادی پارٹی کے قد آور لیڈر اعظم خان کے جانشیں عبدﷲ اعظم کا مقابلہ نواب کاظم علی کے بیٹے حمزہ میں سے ہے جو کہ بی جے پی سے الحاق پارٹی اپنا دل سے امیدوار ہیں۔ یوپی بھر میں این ڈی اے سے وہ اکیلا مسلم چہرہ ہیں۔ رامپور شہر سے اعظم خان و نواب کاظم علی آمنے سامنے ہیں۔ بی جے پی سے آکاش سکسینہ بھی قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔


بات رامپور کی کریں تو حق رائے دہی کے بعد یہ سامنے آ رہا ہے کہ رامپور میں بھی سبھی چاروں سیٹوں پر عوام نے کمل اور سائیکل کو ہی پسند کیا ہے۔ اکلوتی چمروہ سیٹ ہے جس کے لئے کہا جا رہا ہے کہ یہاں سہ رُخی مقابلہ ہو سکتا ہے۔ کانگریس کے یوسف علی، سماجوادی پارٹی کے نصیر خاں اور بی جے پی کے موہن لال لودی میں سے کسی بھی ایک کی قسمت جاگ سکتی ہے۔

مرادآباد کی چھ سیٹوں پر صبح سے ہی اقلیتی طبقہ میں سائیکل چلتی نظر آئی اور اکثریتی طبقہ میں کمل کھلتا نظر آیا۔ کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کی مرادآباد آمد کے بعد لگا تھا کہ کانگریس ایک دو سیٹوں پر کچھ اچھا کرے گی مگر عوام نے کسی جانب بھی دھیان نہیں دیا بلکہ یوپی میں تبدیلی کے نام پر بیشتر اقلیتی طبقہ نے سماجوادی پارٹی پر ہی بھروسہ جتایا۔ اکثریتی طبقہ سے بھی یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ کچھ فیصد ووٹ حکومت سے ناراض افراد نے سماجوادی امید واروں کو ہی دیا ہے۔ دلت ووٹ کے لئے کہا جا رہا ہے کہ وہ ہاتھی کے نشان سے نہیں ہٹے مگر ضلع کی سبھی چھ سیٹوں پر دلت طبقہ اکیلے کسی کو کامیاب نہیں کر سکتا۔


مرادآباد میں بی جے پی و سماجوادی پارٹی کے امیدوار کس سیٹ پر کامیاب ہوں گے یہ 10 مارچ کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اتحاد کے امیدواروں کا بی جے پی امیدواروں سے سخت مقابلہ ہوگا۔ سنبھل ضلع کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ وہاں بھی سماجوادی پارٹی اتحاد اور بی جے پی امیدواروں کے بیچ ہی فیصلہ ہوگا۔ سنبھل سیٹ سے اقبال محمود مضبوط دعوے دار رہتے ہیں۔ وہ پانچ بار یہاں سے اسمبلی رکن رہ چکے ہیں، چھٹی بار وہ اس مقابلے میں ہیں۔

اسمولی سیٹ سے سماجوادی پارٹی کی پنکی یادو بھی مضبوط دعوے دار ہیں اور موجودہ ایم ایل اے ہیں۔ چندوسی اسمبلی سیٹ کے لئے کہا جا رہا ہے کہ وہاں بی جے پی کی مضبوط پکڑ بتائی جا رہی ہے۔ گنور اسمبلی حلقہ میں بھی سماجوادی و بی جے پی کا سخت مقابلہ ہے۔ امروہہ کی بھی سبھی چار سیٹوں پر سماجوادی پارٹی و بی جے پی کا مقابلہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ امروہہ سیٹ سے موجودہ ایم ایل اے محبوب علی میدان میں ہیں جو کہ چار بار اس علاقے کی نمائندگی یو پی کے ایوان میں کر چکے ہیں۔ نوگاواں سادات پر اس بار سابق ایم ایل اے سمرپال سنگھ سماجوادی پارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ بی جے پی نے یہاں چیتن چوہان مرحوم کی اہلیہ کا ٹکٹ کاٹ کر دیوندر ناگ پال پر داؤ لگایا ہے۔


حسن پور میں سماجوادی پارٹی نے مکھیا گوجر کو ٹکٹ دیا ہے اور بی جے پی نے موجودہ ایم ایل اے گھڑگونشی پر ہی بھروسہ جتایا ہے۔ اس سیٹ پر کانگریس نے مسلم امیدوار پر بھرسہ کیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ تبدیلی کی ہوا نے اقلیتی ووٹ کو سائیکل پر سوار رکھا ہے۔ بجنور ضلع سے بھی کچھ ایسی ہی خبریں آ رہی ہیں۔ حالانکہ نگینہ پارلیمانی حلقہ سے بی ایس پی کے گریش چندر پارلیمانی ممبر ہیں اس لئے یہ امید کی جا رہی ہے کہ بجنور کی 8 سیٹوں میں سے کچھ سیٹوں پر بی ایس پی کا بھی دخل رہے گا۔ بجنور ضلع سے آ رہی اطلاعات کے مطابق وہاں بھی بیشتر سیٹوں پر سماجوادی پارٹی اتحاد اور بی جے پی کے بیچ ہی مقابلہ ہے۔ کمشنری کے سبھی پانچ اضلاع سے آ رہی خبروں کی اگر مانیں تو سماجوادی پارٹی اس علاقے میں بی جے پی پر بھاری پڑتی نظر آ رہی ہے۔ سبھی پارٹیوں کے امیدواروں کو 10 مارچ کا بے چینی سے انتظار ہے کیونکہ سبھی امیدواروں کی قسمت ای وی ایم میں بند ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔