پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس کل سے شرع، حزب اختلاف کے پاس ایشوز کی بھرمار، حکومت کی دفاعی حکمت عملی تیار

کل جماعتی اجلاس میں ٹی ایم سی، ایس پی، بی ایس پی، ٹی آر ایس، این سی پی اور شیو سینا سمیت کئی دیگر حزب اختلاف جماعتوں کی غیر موجودگی نے مانسون اجلاس کے ہنگامہ خیز ہونے کا امکان پیدا کر دیا ہے

حزب اختلاف کے لیڈران ادھیر رنجن چودھری، سنجے سنگھ / یو این آئی
حزب اختلاف کے لیڈران ادھیر رنجن چودھری، سنجے سنگھ / یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: پارلیمنٹ کا مانسون پیر کے روز یعنی کل سے شروع ہونے جا رہا ہے اور اجلاس کے پہلے ہی دن ملک کے نئے صدر کا انتخاب ہونے جا رہا ہے، لہذا مودی حکومت اجلاس کو یادگار بنانا چاہتی ہے۔ صدر کے انتخاب کے لئے لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں کے ارکان پارلیمنٹ ہاؤس کمپلیکس میں ووٹ ڈالیں گے۔ بی جے پی نے ایک قبائلی خاتون دروپدی مرمو کو صدارتی امیدوار بنا کر ایک بڑا سیاسی داؤ کھیلا ہے اور اب اس کی زیادہ سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔

اس کے بعد پارلیمنٹ کے اسی اجلاس کے دوران 6 اگست کو ملک کے نائب صدر کے لیے بھی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ بی جے پی نے نائب صدر کے لیے مغربی بنگال کے موجودہ گورنر جگدیپ دھنکڑ کو امیدوار بنایا ہے، جن کا تعلق راجستھان سے ہے۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبران پارلیمنٹ کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یہ تقریباً یقینی ہے کہ دھنکڑ انتخاب جیت جائیں گے۔ ایسے حالات میں یہ اجلاس بی جے پی حکومت کے لیے اس لحاظ سے یادگار ثابت ہونے والا ہے کہ ایک بار پھر ملک کے دو اعلیٰ آئینی عہدوں پر اس کے امیدوار جیتنے کے بعد فائز ہونے والے ہیں۔


دوسری طرف، ان دونوں عہدوں پر این ڈی اے کے امیدواروں کے جیتنے کے قوی امکانات کے باوجود اپوزیشن ایوان کے اندر اور باہر بھرپور طریقے سے حکومت کو گھیرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کی طرف سے ہفتہ کے روز پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس سے قبل طلب کی گئی ایک آل پارٹی میٹنگ میں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی اولوالعزم اسکیم ’اگنی ویر‘، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور ڈادلر کے مقابلہ روپے کی گرتی ہوئی قدم پر بحث کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے ارادوں کو واضح کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے جس انداز میں غیر پارلیمانی الفاظ اور پارلیمنٹ ہاؤس کمپلیکس میں دھرنے اور مظاہرے پر پابندی کے سرکلر کے خلاف احتجاج کیا، اس سے یہ بھی عیاں ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اجلاس کے دوران حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہیں۔

لوک سبھا اسپیکر کی طرف سے طلب کئے گئے کل جماعتی اجلاس میں ترنمول کانگریس، ایس پی، بی ایس پی، ٹی آر ایس، این سی پی، نیشنل کانفرنس، اے آئی ایم آئی ایم اور شیو سینا سمیت کئی دیگر اپوزیشن جماعتوں کی غیر موجودگی سے اجلاس کے ہنگامہ خیز ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی بات کریں تو ایک طرف تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ ہیں جو دوسری پارٹیوں کو ساتھ لے کر بی جے پی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں، وہیں دوسری طرف مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی ہیں جو یشونت سنہا قضیہ کی طرح اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کرتی نظر آنا چاہتی ہیں۔ ملک میں ان دو علاقائی جماعتوں کے درمیان ملک کی قدیم ترین اور موجودہ وقت کی سب سے بڑی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس ہے۔


حزب اختلاف کی جماعتیں اگنی ویر اسکیم، بڑھتی مہنگائی اور ڈالر کے مقابلے روپے کی گرتی ہوئی قدر کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پارٹیاں کسانوں کے مسائل، ایم ایس پی، بے روزگاری، ہند چین سرحدی صورتحال، ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، نوپور شرما قضیہ سمیت کئی دیگر مسائل پر بحث کرانے کا مطالبہ کر کے حکومت کو گھیرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ 18 جولائی سے شروع ہونے والا پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس 12 اگست تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Jul 2022, 7:05 PM
/* */