بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کا مسئلہ گلے کی ہڈی بن گیا... جمال عباس فہمی

بنچ نے ریاستی حکومت سے پوچھا کہ مجرموں کو رہا کرنے میں کس پالیسی پر عمل کیا گیا، کن عناصر کی وجہ سے یہ اقدام کیا گیا، اقدام کرنے میں کیا عقل و فہم سے کام لیا گیا؟

بلقیس بانو، تصویر آئی اے این ایس
بلقیس بانو، تصویر آئی اے این ایس
user

جمال عباس فہمی

بلقیس بانو عصمت دری کیس کے گیارہ مجرمین کی رہائی کا معاملہ گجرات کی ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے گلے کی ہڈی بنتا جا رہا ہے۔ دونوں حکومتیں مجرموں کی رہائی سے متعلق فائلیں سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنے میں آنا کانی کر رہی ہیں۔ اور سپریم کورٹ ان کی اس حرکت پر سخت برہمی ظاہر کر رہا ہے۔ جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگ رتھنا کی بنچ نے دونوں حکومتوں کو حتمی طور سے حکم دے دیا ہے کہ یا تو معاملے کی آئندہ سماعت پر فائلیں پیش کر دیں یا توہین عدالت کی کاروائی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے یہ ہدایت دیتے ہوئے ریمارک کیا کہ اگر مجرموں کی رہائی کی کوئی جائز وجہ ظاہر نہیں کی جاتی ہے تو عدالت اس کے اپنے طور سے نتائج اخذ کرے گی۔

ویسے تو 2002 کے گجرات فسادات ہی اپنے آپ میں ہولناک تھے۔ ان فسادات کے دوران حیوانیت اور اخلاق سوزی کے ایسے درجنوں واقعات ہوئے جن کے بارے میں سن کر اور پڑھ کر ہی انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔ کہیں کسی حاملہ کا پیٹ چاک کر کے اس کے نومولود بچے کو نکال کر ہوا میں اچھالا گیا۔ کہیں انسانوں کو زندہ جلایا گیا۔ کہیں خواتین کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا۔ ان فسادات کے دوران کسی کو قتل کر دینا، املاک کو لوٹنا اور آگ کے حوالے کر دینا تو بہت معمولی بات تھی۔


ان ہی روح فرسا واقعات میں بلقیس بانو کا معاملہ بھی ہے۔ بلقیس بانو کیس ایسا واحد کیس ہے جس میں انسان نما بھیڑیوں نے خواتین کی عصمت دری بھی کی اور اور لوگوں کو قتل بھی کیا۔ بلقیس بانو، اس کی ماں اور اس قافلے میں شامل تین دیگر خواتین کی عصمت کو تار تار کیا گیا۔ بلقیس بانو اس وقت پانچ ماہ کے حمل سے تھی۔ اس وحشیانہ حملے میں 15 افراد میں بلقیس بانو، ایک مرد اور تین سال کی ایک بچی ہی زندہ بچ سکے تھے۔ بقیہ سب کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں گیارہ ملزمین کو عدالت نے مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا دی تھی۔ لیکن گزشتہ برس یوم آزادی پر ان تمام گیارہ مجرموں کو گجرات کی حکومت نے قید سے آزاد کر دیا تھا۔

مجرموں کی رہائی کو سپریم کورٹ میں چنوتی دی گئی ہے۔ ججوں کی بنچ گجرات اور مرکزی حکومت سے رہائی سے متعلق فائلیں عدالت میں پیش کرنے کو کہہ رہی ہے لیکن فائلیں نہیں پیش کی جا رہی ہیں۔ عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ وہ کون سے اسباب ہیں جن کی بنیاد پر عمر قید کے مجرموں کو رہا کیا گیا۔ جسٹس جوزف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر مجرموں کو اسی طرح رہا کیا جاتا رہا تو آج بلقیس کا معاملہ ہے کل کو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ عدالت نے حکومت کی جانب سے کیس کی پیرو کرنے والے ایڈیشنل سالی سیٹر جنرل ایس وی راجو سے کہا کہ فائلیں پیش کرنے میں پریشانی کیا ہے۔ فائلیں پیش نہیں کر کے توہین عدالت کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ نظر ثانی کی اپیل بھی داخل نہیں کی گئی ہے۔


فاضل ججوں کی بنچ نے اس نکتہ پر بھی غور کیا کہ ہر مجرم کو ایک ایک ہزار سے زیادہ دنوں کے پیرول پر رہا کیا گیا تھا۔ ایک مجرم کو تو 1,500 روز کا پیرول دیا گیا تھا۔ بنچ نے ریاستی حکومت سے پوچھا کہ مجرموں کو رہا کرنے میں کس پالیسی پر عمل کیا گیا۔ کن عناصر کی وجہ سے یہ اقدام کیا گیا۔ اقدام کرنے میں کیا عقل و فہم سے کام لیا گیا اور کیا حقوق کا معاملہ سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا۔

بلقیس بانو کے معاملے کی سنگینی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جسٹس جوزف نے کہا کہ اس کیس کا موازنہ قتل کے کسی عام کیس سے نہیں کیا جاسکتا۔ جس طریقے سے جرم کا ارتکاب کیا گیا وہ ہولناک تھا۔ ایک حاملہ خاتون کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ متعدد افراد کو بے دردی کے ساتھ مار ڈالا گیا۔ اس کیس کا موازہ دفعہ تین سو دو کے کسی قتل کے کیس سے نہیں کیا جاسکتا۔ سیب اور سنترے کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔ ججوں نے گجرات حکومت سے کہا کہ کوئی بھی ریاست قانون کی حدود سے باہر نہیں جا سکتی۔


 جسٹس جوزف اور جسٹس ناگ رتھنا کی بنچ اس کیس کی جس انداز سے سماعت کر رہی ہے اور جس طرح سے ریاست اور مرکزی حکومت کو بے چین کرنے والے سوالات اٹھا رہی ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ بلقیس بانو کے تمام گیارہ مجرمین پھر سے سلاخوں کے پیچھے پہنچ جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو مرکز کی مودی سرکار اور گجرات کی ریاستی حکومت کے لئے بہت ذلت اور رسوائی کا سامان ہوگا۔ رہائی سے متعلق فائلیں عدالت میں پیش کرنے میں آنا کانی اس بات کا ثبوت ہے کہ مجرموں کی رہائی کے معاملے میں متعلقہ قوانین اور ضابطوں کی سنگین طریقے سے خلاف ورزی کی گئی ہے۔ کم سے کم اس کیس نے مرکز اور گجرات حکومت کو سپریم کورٹ کے سامنے برہنہ ہونے کا سامان فراہم کر دیا ہے۔

 دیکھنا یہ ہے کہ اگلی سماعت پر مجرموں کی رہائی سے متعلق فائلیں پیش کی جاتی ہیں یا توہین عدالت کی کاروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے یا اس کیس کو جسٹس جوزف اور جسٹس ناگ رتھنا کی بنچ سے واپس لیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت عدالتوں کو جس انداز سے اپنے مقاصد کے لئے بے شرمی کے ساتھ استعمال کرتی رہی ہے اس سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ مودی ہے تو سب کچھ ممکن ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔