اہانت رسولؐ: سپریم کورٹ کی گزشتہ ہدایات پر عمل سے متعلق رپورٹ داخل کرنے کے لیے ریاستی حکومتوں کو ملا تین ہفتوں کا وقت

جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر جسٹس اے ایم کھانویلکر نے ریاستی حکومتوں کو سخت ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کی گائیڈلائن کے مطابق اپنے اقدامات کی رپورٹ تین ہفتے کے اندر داخل کریں۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی عرضی (1265/2021) پر سماعت کرتے ہوئے سبھی ریاستی حکومتوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ (تحسین پونہ والا کیس میں) عدالت عظمی کی دی گئی گائیڈلائن کے مطابق اپنے اقدامات سے متعلق رپورٹ تین ہفتے کے اندر داخل کریں۔ سپریم کورٹ نے جمعیۃ علماء ہند و دیگر عرضی گزاروں کو بھی حکم دیا کہ وہ اہانت رسولؐ و منافرت انگیزی کے واقعات کو ظاہر کرنے والا ایک مجموعی ٹیبل چارٹ بنائیں اور ایک ہفتے میں ریاستی حکام کو فراہم کریں جو اس کے جواب میں یہ بتائیں گے کہ ان واقعات کے سلسلے میں کیا کارروائی کی گئی ہے۔ اس کے بعد ایک ہفتے کے اندر جواب الجواب داخل کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اگلی سماعت کے لیے چھ ہفتوں کے بعد کا وقت مقرر کیا ہے۔

آج یہ مقدمہ جسٹس اے ایم کھانویلکر اورجسٹس اے ایس اوکا کی بنچ کے سامنے زیر سماعت تھا، جہاں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے سینئر وکیل میناکشی اروڑا اور ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد پیش ہوئے۔ وکلاء نے پرزور طریقے سے جمعیۃ علماء ہند کے اس فکرمندی کو عدالت کے سامنے رکھا کہ مسلمان، سارے عالم کے عظیم ترین پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر بہت ہی زیادہ دکھ اور قلق میں ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے ستمبر 2021 میں تریپورہ میں اجتماعی طور سے پیغمبر اسلام کی توہین کے بعد ہی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اس وقت یہ عرض کیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ نے ہدایت جاری نہیں کی تو ملک میں ایسے واقعات دوبارہ ہوں گے، جو کافی تکلیف دہ اور مشکل حالات کا سبب ہوں گے۔ آج جو ملک میں حالات ہیں، وہ جمعیۃ علماء ہند کی پیش آگاہی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے اور اس کے لیے سرکاروں کا سرد مہری پر مبنی رویہ بھی ذمہ دار ہے۔


ایڈووکیٹ میناکشی اروڑا نے کہا کہ اہانت رسولؐ کے واقعات ملک کے آئین اور اس میں موجود سیکولر کردار پر بھی حملہ ہے، لیکن حرفِ افسوس یہ ہے کہ موجودہ سرکاروں نے ان واقعات کے سلسلے میں انتہائی متعصبانہ کردار ادا کیا ہے اور اس کے مرتکبین سے نرمی برتی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند ان حقائق کا برملا اظہار کرتی ہے کہ نفرتی واقعات بالخصوص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی وجہ سے ملک کی تکثیریت اور مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان بقائے باہمی کی وطنی خصوصیت کو شدید خطرہ لاحق ہے جس کی حفاظت سبھی ہندوستانیوں بالخصوص سرکاری مشنریوں کی آئینی ذمہ داری ہے۔

آج سپریم کورٹ کی ہدایت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی نے کہا کہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ساری دنیا کے انسانوں کے لیے سراپا رحمت اور قابل احترام ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ سے امید ہے کہ وہ اس انتہائی حساس موضوع پر جلد ہدایت جاری کرے گی۔ آج یہ افسوس کا مقام کہ ہماری حکومتیں خود سے بیدار نہیں ہوتیں، ان کو عدالتوں کی ہدایت کا انتظار کرنا پڑتا ہے، جو کسی بھی طرح ملک کی ترقی، سالمیت اور خود مختاری کے لیے مفید نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔