اتراکھنڈ کے گورنر کی تقریر: نظریہ، سمت اور عزائم غائب، صرف گزشتہ حکومت کے کاموں کی تعریف

اتراکھنڈ کی نومنتخب پانچویں اسمبلی کے پہلے اجلاس کے پہلے دن پیش گورنر کی تقریر میں موجودہ حکومت کے عزائم کی جگہ محض گزشتہ حکومت کے کاموں کی تعریف سنائی دی۔

اتراکھنڈ کے گورنر
اتراکھنڈ کے گورنر
user

قومی آوازبیورو

آئین کی دفعہ 175 کے تحت کسی بھی ریاست کا گورنر اپنی تقریر میں اپنی حکومت کے سال بھر کے عزائم کے ساتھ ہی ریاست کی ترقی اور عوامی مفاد کے معاملوں کے تئیں نظریہ پیش کرتا ہے۔ اسے ایک طرح سے حکومت کا منشور یا عزائم نامہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ انتخابی عمل کے بعد تشکیل اسمبلی کے پہلے اجلاس کے پہلے دن پیش کی گئی تقریر تو انتہائی اہم ہوتی ہے کیونکہ اس میں نوتشکیل حکومت کے آئندہ پانچ سالوں کے عزائم کا دستاویز یا ترقیاتی روڈ میپ مانا جاتا ہے۔ لیکن اتراکھنڈ کی نوتشکیل حکومت کے عزائم کی جگہ محض گزشتہ حکومت کے کاموں کی تعریف ہی ہے۔ دھامی حکومت نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ریاستی عوام سے کئی وعدے کیے تھے جو کہ اس تقریر سے غائب ہے۔ یہی نہیں، دھامی حکومت کی اس مدت کار میں کابینہ کی پہلی میٹنگ کی یونیفارم سول کوڈ والی تجویز بھی اس تقریر سے غائب ہے۔ کاش تقریر تیار کرنے والوں نے 18 مارچ 2002 کو سابق گورنر سرجیت سنگھ برنالہ کا پہلی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں پڑھی گئی تاریخی تقریر پڑھی ہوتی۔

نئے مینڈیٹ سے حکومت کی تشکیل کے بعد ریاستی عوام گورنر لیفٹیننٹ جنرل (سبکدوش) گرمیت سنگھ کی تقریر کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی۔ عوام کا تجسس فطری اس لیے تھا کیونکہ برسراقتدار بی جے پی نے گزشتہ اسمبلی انتخاب کے اپنے منشور میں ووٹروں سے کئی وعدے کیے تھے۔ ان وعدوں کے علاوہ بھی وزیر اعلیٰ دھامی نے کئی اعلانات کیے تھے۔ اس لیے امید کی جا رہی تھی کہ حکومت اسمبلی کے پہلے اجلاس کے پہلے ہی دن اپنے مستقبل کے پروگراموں کو تفصیل سے رکھے گی اور ان پروگراموں یا عزائم کو زمین پر اتارنے کے لیے ان کے لیے آنے والے بجٹ میں پیسے کا انتظام کرے گی۔ عموماً ہوتا بھی یہی ہے۔ گورنر کے ذریعہ تقریباً ایک گھنٹے تک پڑھے گئے 14 صفحات کی تقریر گزشتہ حکومت کی مدت کار کی حصولیابیوں اور پروگراموں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ موجودہ دھامی حکومت ان کی ہی گزشتہ حکومت کا اگلا ایڈیشن ہے اس لیے تقریر میں گزشتہ حکومت کی حصولیابیوں کی تعریف کی گئی ہے۔ لیکن گزشتہ بار دھامی حکومت نے اپنی 6 ماہ کی مختصر مدت کار میں جو 500 سے زائد اعلانات کیے تھے ان میں سے بیشتر پر عمل آوری پیسے اور وقت کی کمی کے سبب پہلے ہی نہیں ہو سکی تھی۔ لیکن نوکرشاہ تقریر تیار کرتے وقت ان مکمل اور نامکمل اعلانات تک کو بھول گئے۔


اپنی پسند کی نئی حکومت کے لیے اتراکھنڈ کی عوام نے 14 فروری کو مینڈیٹ دے دیا تھا جس کا نتیجہ 10 مارچ کو برآمد ہوا۔ لیکن ریاست کو اس کی پسند کی نئی حکومت پورے 13 دن بعد 23 مارچ کو مل سکی۔ حکومت بھی ایسی کہ جس کے وزیر تقریباً ہفتے بھر سے اپنے محکموں کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسمبلی میں بغیر محکموں کے وزیر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ گورنر کی تقریر نوکرشاہ ہی تیار کرتے ہیں لیکن اس میں ترجیحات تو سیاسی قیادت کی ہی ہوتی ہے۔ جنرل گرمیت سنگھ کے ذریعہ پڑھی گئی تقریر میں سیاسی قیادت کا نظریہ اور اس کی ترجیحات نظر نہیں آتیں۔

وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی قیادت میں تشکیل 9 رکنی کابینہ کی پہلی میٹنگ میں پہلی تجویز ریاست میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی تھی۔ ہندوستان میں اب تک کسی بھی ریاستی حکومت نے ایسی کوشش نہیں کی۔ گوا میں یکساں سول کوڈ نافذ ضرور ہے لیکن اس میں گوا حکومت یا وہاں کی اسمبلی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ وہ قانون پرتگالیوں نے 1867 میں نافذ کیا تھا جسے ہندوستانی پارلیمنٹ نے 1962 میں جاری رکھا۔ اسمبلی انتخاب میں 100 دن کے اندر لوک آیُکت تشکیل کے وعدے پر تو پردہ ڈال دیا لیکن دھامی حکومت نے دوبارہ اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے انتخابی وعدے کے مطابق یکساں سول کوڈ بنانے کا فیصلہ ضرور لے لیا۔ لیکن حکومت کا یہ فیصلہ بھی گورنر کی تقریر سے غائب ہو گیا۔ اب مانا جا سکتا ہے کہ حکومت کی آنکھیں کھل گئیں اس لیے اب لوک آیُکت والی قبر میں ہی یکساں سول کوڈ کو ڈالنے کی پیش قدمی ہو گئی ہے۔


14 صفحات کی تقریر میں صفحہ 13 پر کُل آٹھ عزائم کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں پہاڑی سلسلہ کا عزم حکومت ہند کا ہے۔ ایس طرح 4جی اور 5جی موبائل نیٹورک کا عزم بھی حکومت ہند سے متعلق ہے۔ ہریدوار کو بین الاقوامی یوگا راجدھانی بنانے والا عزم ہر سال لیا جاتا ہے۔ چار دھام سرکٹ میں آنے والے مندروں اور گرودواروں کے فزیکل ڈھانچے اور ٹرانسپورٹیشن سہولیات کی توسیع کی بات بھی نئی نہیں ہے۔ اس میں صرف ہندوؤں اور سکھوں کے مذہبی جذبات کا دھیان رکھا گیا ہے، لیکن 14 فیصد اقلیتی ریاستی عوام سے دوری ضرور رکھی گئی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر عزائم میں سرحدی علاقوں میں سابق فوجیوں کے لیے ’ہِم پرہری یوجنا‘، پی ایم کسان سمّان ندھی کے طرز پر ’مکھیہ منتری کسان پروتساہن ندھی‘ اور اتراکھنڈ آرگینکس برانڈ بنانے کا عزم تقریر میں ظاہر کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ اب تک کی سب سے مایوس کن اور نظریات سے خالی تقریر ہے جو کہ ریاست کی سیاسی قیادت کی ناتجربہ کاری کا غماز ہے۔

اگر تقریر تیار کرنے والی مشینری اور سیاسی قیادت نے ریاست کی پہلی نومنتخب اسمبلی کی پہلی میٹنگ میں 18 مارچ 2002 کو سابق گورنر سرجیت سنگھ برنالہ کی تقریر پڑھی ہوتی تو انھیں جانکاری ہوتی کہ تقریر کیسی ہوتی ہے۔ ملک کے سب سے زیادہ تجربہ کار وزیر اعلیٰ نارائن دَت تیواری کے ذریعہ تیار کرائی گئی اس تقریر کے مجموعی طور پر 72 نکات تھے جن میں 90 فیصد عزائم ہی تھے۔ اس تقریر میں سڑکوں کا ماسٹر پلان سمیت پورے پانچ سال کے ترقیاتی پروگراموں کا روڈمیپ تھا جسے سالانہ اعتبار سے طے مدت کے ساتھ باندھا گیا تھا۔ کچھ عزائم کو صرف مہینوں کا ہی وقت دیا گیا تھا۔ وہ تقریر سیاسی قیادت کے تجربے، ہنر، نظریات اور عزائم کا ایک نمونہ تھی۔

(نوجیون انڈیا ڈاٹ کام کے لیے تحریر کردہ جئے سنگھ راوت کے مضمون کا اردو ترجمہ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */