شاہجہانپور بارڈر: 35 گاؤں والوں نے مل کر بڑی سڑک پر ہی بسا لیا ایک ’بڑا گاؤں‘!

ہزاروں کسانوں کے درمیان یہاں ایک میواتی کیمپ بھی ہے جسے مفتی سلیم ساکرس چلا رہے ہیں۔ یہاں گاؤں سے ہر روز 500 لیٹر دودھ آ رہا ہے۔ یہ کیمپ 24 گھنٹے تحریک چلا رہے کسانوں کو چائے ناشتہ فراہم کر رہا ہے

شاہجہانپور بارڈر / تصویر آس محمد کیف
شاہجہانپور بارڈر / تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

شاہجہانپور بارڈر دہلی سے 110 کلومیٹر کے فاصلہ پر موجود ہے اور یہ شاہراہ ملک کی سب سے مصروف شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ یہ ہریانہ اور راجستھان کا بارڈر تو ہے ہی، ممبئی جانے کے لئے بھی یہاں سے شاہراہ جاتی ہے۔ یہاں مقامی لوگ اس شاہراہ کو ’بڑی سڑک‘ کہتے ہیں، یہ دراصل قومی شاہراہ 48 ہے اور ملک کے لئے ایک اہم شاہراہ ہے۔ سنگھو اور ٹیکری بارڈر پر لاکھوں کی تعداد میں بلند حوصلوں کے ساتھ کسان ڈیرا جمائے ہوئے ہیں تو غازی پور بارڈر ’ٹکیت لینڈ‘ بن چکا ہے۔ شاہجہانپور بارڈر کا احتجاج سنگھو، ٹیکری اور غازی پور بارڈر سے مختلف نظر آتا ہے، تاہم لڑائی اور مطالبات ان کے بھی وہی ہیں۔

دہلی-ممبئی-جے پور کو جوڑنے والے اس ہائی وے پر تین کلومیٹر تک کسان جمے ہوئے ہیں اور گزشتہ 35 دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں، جبکہ سنگھو اور ٹیکری بارڈر پر احتجاج کو 51 دن مکمل ہو چکے ہیں۔

شاہجہانپور بارڈر: 35 گاؤں والوں نے مل کر بڑی سڑک پر ہی بسا لیا ایک ’بڑا گاؤں‘!
شاہجہانپور بارڈر: 35 گاؤں والوں نے مل کر بڑی سڑک پر ہی بسا لیا ایک ’بڑا گاؤں‘!
شاہجہانپور بارڈر: 35 گاؤں والوں نے مل کر بڑی سڑک پر ہی بسا لیا ایک ’بڑا گاؤں‘!
شاہجہانپور بارڈر: 35 گاؤں والوں نے مل کر بڑی سڑک پر ہی بسا لیا ایک ’بڑا گاؤں‘!
شاہجہانپور بارڈر: 35 گاؤں والوں نے مل کر بڑی سڑک پر ہی بسا لیا ایک ’بڑا گاؤں‘!
شاہجہانپور بارڈر: 35 گاؤں والوں نے مل کر بڑی سڑک پر ہی بسا لیا ایک ’بڑا گاؤں‘!

ریواڑی اور الور کے آس آس کے گاؤں کے ان کسانوں میں میوات کے کسانوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے۔ ’ویدربھا‘ کے کسانوں کی بیواؤں کا ایک گروپ بھی یہاں پہنچا ہے۔ ٹیکری اور سنگھو بارڈر پر اگر شہر بسا ہے اور شاہجہانپور بارڈر پر ایک گاؤں! میوات کی ایک تاریخ کی وجہ سے یہاں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔ بڑی سڑک کو کنٹینروں سے بلاک کر دیا گیا ہے اور آر سی سی کی بڑی بڑی بندشیں یہاں لگا دی گئی ہیں۔


میوات کے آس پاس کے ان گاؤں میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ پنچایت سے ہوتا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے بھی 35 گاؤں کی پنچایت ہوئی۔ اب ایسی پنچائتیں گاؤں گاؤں میں ہو رہی ہیں اور تحریک کو آگے بڑھانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ یہاں موجود ’جاٹ مہاسبھا‘ کے صدر راجا رام میل بتاتے ہیں کہ بارش، طوفان، سردی جیسی تمام بندشیں ہم پار کر چکے ہیں، پتھر ہمارا راستہ نہیں روک پائیں گے۔ راجارام بتاتے ہیں کہ گاؤں بڑا ہو رہا ہے اور ہر روز 10-12 نئی جھونپڑیاں یہاں بس جاتی ہیں۔

راجستھان کی پھولیرا تحصیل سے آنے والے دو کسان نارائن لال اور گوپال جی مینا کی جوڑی قابل دید ہے۔ نارائن 68 سال کے ہیں اور گوپال جی 72 سال کے۔ گوپال قوت گویائی سے محروم ہیں اور نارائن ان کے اشاروں کو سمجھتے ہیں اور صحافیوں کو بتاتے ہیں۔ گوپال کے اشارے سمجھتے ہوئے نارائن نے کہا، ’’یہ کہہ رہا ہے کہ گھر کہہ کر آیا ہے کہ یا تو یہ قانون واپس ہوگا یا پھر میں بھگوان کے گھر واپس چلا جاؤں گا۔ میں جنگ کو ادھوری چھوڑ کر نہیں جانے والا۔‘‘


فورس نے جو ’تھری لیئر پروٹیکشن‘ لگائی ہے اسے اکھاڑنے کے لئے کسانوں نے ’جے سی بی‘ مشین منگوا لی ہے۔ راجارام میل بتاتے ہیں کہ جے سی بی اور کرین تو کسانوں کے گھر گھر میں ہیں۔ یہاں تو لڑکیوں کی شادی میں بھی کچھ لوگ کار کی جگہ ٹریکٹر اور جے سی بی ہی دیتے ہیں۔ ہمیں کون سا کرایہ دینا ہے! جب دہلی جانے کا اعلان ہوگا پتھر کینٹر اٹھاکر پھینک دیں گے۔ ابھی ہمارے کچھ بھائی جذباتی ہو کر 35 کلومیٹر چلے گئے تھے، وہاں نا پر آنسو گیس اور پانی کی بوچھاڑ کی گئی تو وہیں بیٹھ گئے۔ اس جگہ کا نام دھاروہیڑا ہے۔ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چاہے ایک کوس ہی چل پائیں!

ہزاروں کسانوں کے درمیان یہاں ایک میواتی کیمپ بھی ہے جسے مفتی سلیم ساکرس چلا رہے ہیں۔ یہاں گاؤں سے ہر روز 500 لیٹر دودھ آ رہا ہے۔ یہ کیمپ 24 گھنٹے تحریک چلا رہے کسانوں کو چائے ناشتہ فراہم کر رہا ہے۔ مفتی سلیم نے کہا، ’’ہم بھی کسان ہیں۔ سب ساتھ لڑیں گے۔‘‘ جاٹ مہاسبھا کے بلبیر چھلر بھی یہاں چائے پی رہے ہیں، وہ ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہاں ہم لڑیں گے ساتھی!‘‘


سوراج انڈیا کے یوگیندر یادو بھی ان کسانوں کے بیچ لگاتار ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ لگاتار کسانوں کے بیچ گھومتے ہیں اور یہاں مدد لے کر آنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں 800 سے زیادہ بڑی کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں، جن میں کئی تو ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ ہائی وے بند ہونے کی وجہ سے کاروبار بھی بند پڑا ہے۔ کئی کلومیٹر تک لگی ان ٹرکوں کی قطار اس کی گواہ ہے، جو یہیں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

ان کسانوں کا سب سے بڑا سہارا الاؤ ہے جو انہیں گرمی اور طاقت دیتا رہتا ہے۔ رات بھر یہاں بیٹھنے والے جتیندر سنگھ کہتے ہی، ’’اس رات کی صبح کبھی تو آئے گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 16 Jan 2021, 9:52 AM