نظربندی کو اللہ کی طرف سے امتحان قرار دے رہے شاہ فیصل

شاہ فیصل اپنی نظر بندی کے ایام قرآن مجید کی تفسیر کے مطالعے، قانون، تاریخ اور اردو ادب و شاعری پر مبنی کتابیں پڑھنے اور نماز پنجگانہ کی پابندی سے ادائیگی میں گزار رہے ہیں

تصویر سوشل میدیا
تصویر سوشل میدیا
user

یو این آئی

سری نگر: کشمیری قوم کے لئے نیلسن منڈیلا بننے کا ارادہ رکھنے والے 36 سالہ سابق آئی اے ایس افسر اور جموں وکشمیر پیپلز موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر شاہ فیصل اپنی نظر بندی کے ایام قرآن مجید کی تفسیر کے مطالعے، قانون، تاریخ اور اردو ادب و شاعری پر مبنی کتابیں پڑھنے اور نماز پنجگانہ کی پابندی سے ادائیگی میں گزار رہے ہیں۔

سن 2010 بیچ کے یو پی ایس سی ٹاپر شاہ فیصل، جنہیں 14 اگست 2019 کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر حراست میں لیکر سری نگر میں نظربند کیا گیا تھا، پر رواں ماہ کی 14 تاریخ کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) عائد کیا گیا۔ اس قانون کے تحت انہیں عدالت میں پیشی کے بغیر کم از کم تین ماہ تک قید کیا جائے گا اور اس کے بعد ان کی نظربندی میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔ وہ فی الوقت یہاں ایم ایل اے ہوسٹل سب جیل میں نظربند ہیں۔


شاہ فیصل کے خاندانی ذرائع نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ مقید لیڈر کو سیاست میں داخل ہونے کے اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور وہ اپنی نظربندی کو اللہ کی طرف سے امتحان قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ‘شاہ فیصل دوران نظربندی نماز پنجگانہ کی پابندی سے ادائیگی، قرآن مجید کی تفسیر کے مطالعے اور کتابیں پڑھنے میں محو رہتے ہیں۔ وہ قانون، تاریخ اور اردو ادب و شاعری پر مبنی کتابیں پڑھتے ہیں۔ سب سے زیادہ انہیں جن کتابوں میں دلچسپی ہے وہ اردو ادب و شاعری ہے۔ انہیں اردو ادب و شاعری پر غیر معمولی دسترس حاصل ہے’۔

ان کا مزید کہنا ہے: ‘وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے گزشتہ چھ ماہ کے دوران کافی تجربہ حاصل ہوا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ جو کتابیں پڑھنے کا موقع کبھی نہیں ملا تھا وہ میں نے ان چھ ماہ کے دوران پڑھ لیں’۔ خدانی ذرائع کے مطابق شاہ فیصل کھانے پینے کے معاملے میں ہمیشہ سادگی اپناتے رہے ہیں اور اپنی نظربندی کے دوران اپنا وزن کم کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔


شاہ فیصل کی جماعت کے ایک لیڈر نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ مقید لیڈر کو سیاست میں داخل ہونے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور وہ کشمیری قوم کے لئے نیلسن منڈیلا بننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ‘جب ہم ایک بار بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر ڈاکٹر مسعود احمد چوہدری سے ملے تو انہوں نے شاہ فیصل کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ آپ نے بہت بڑی غلطی کی، میں آپ کو پانچ سال بعد چیف سکریٹری کے عہدے پر دیکھنا چاہتا تھا۔ شاہ فیصل کا جواب تھا کہ یہ آپ کی محبت ہے، آپ مجھے چیف سکریٹری کے عہدے پر دیکھنا چاہتے ہیں مگر میں اپنی قوم کا نیلسن منڈیلا بننا چاہتا ہوں۔ یہ تب کی بات ہے جب وہم وخیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ کشمیر میں حالات کبھی اس طرح کروٹ لیں گے’۔

شاہ فیصل کو 14 اگست 2019ء کو نئی دہلی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ امریکہ کے لئے جہاز پکڑنے کی تیاری میں تھے۔ انہیں نئی دہلی سے سری نگر واپس بھیجا گیا تھا جہاں انہیں نظربند کیا گیا۔ شاہ فیصل کا تب کہنا تھا کہ وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے امریکہ جانا چاہتے ہیں۔ تاہم حکومت ہند نے انہیں یہ کہتے ہوئے روکا تھا کہ شاہ فیصل سٹوڈنٹ ویزا پر نہیں بلکہ ٹورسٹ ویزا پر امریکہ جارہے تھے۔


شاہ فیصل نے اپنی گرفتاری سے ایک روز قبل یعنی 13 اگست 2019ء کو بی بی سی کے مقبول ٹی وی پروگرام ہارڈ ٹاک میں بات کرتے ہوئے اپنی گرفتاری کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: 'پولیس مجھے بھی گرفتار کرنے آئی تھی اور مجھے خدشہ ہے کہ جب میں واپس کشمیر جائوں گا تو مجھے بھی گرفتار کر لیا جائے گا'۔

پروگرام ہارڈ ٹاک میں اس سوال پر کہ حکومت ہند کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد آپ اپنی جماعت کے کارکنوں اور کشمیری عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، تو شاہ فیصل کا کہنا تھا: 'پانچ اگست کو جس طرح سے انڈین حکومت نے آئینی شب خون مارا ہے اس سے ہم جیسے سیاستدان جنہیں جمہوری عمل پر یقین تھا اور وہ امید رکھتے تھے کہ انڈیا کے آئین کے اندر رہتے ہوئے ہی اس کا کوئی ممکنہ حل نکلے گا ان کا اعتماد ختم ہو گیا ہے'۔


سری نگر میں شاہ فیصل کو سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے تحت نظربند کیا گیا تھا۔ تاہم رواں برس کے 14 فروری کو جب نظربندی کے مقررہ چھ ماہ مکمل ہوئے تو انتظامیہ نے ان پر پی ایس اے کا اطلاق کیا تاکہ انہیں مزید وقت تک کے لئے بند رکھا جاسکے۔ شاہ فیصل کے پی ایس اے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال انگیز بیانات جاری کررہے تھے۔

(ظہور حسین بٹ، یو این آئی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔