آزاد ہند فوج میں مسلمانوں کی خدمات...شاہد صدیقی علیگ

23 جنوری: سبھاش چندر بوس کی 125 ویں یوم ولادت کے موقع پر خصوصی پیش کش

آزاد ہند فوج / تصویر شاہد صدیقی علیگ
آزاد ہند فوج / تصویر شاہد صدیقی علیگ
user

شاہد صدیقی علیگ

آج نتیاجی سبھاش چندر بوس کی 125 ویں یوم ولادت ہے. اس موقع پر ان گمنام مسلمانوں کی قربانیوں کو بھی یاد کرنا نیتاجی کو سچی خراج عقیدت پیش کرنا ہوگی، جنہوں نے ان کے کندھے سے کندھا ملا کر ملک و قوم کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ انہیں تاریخ ہند میں وہ مقام نہ مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔

آزاد ہند حکومت ،آزاد ہند لیگ اور آزاد ہند فوج دراصل ہندوستانیوں کی بیرونی ملک میں انگریزی پنجوں سے آزاد کرانے کی مہم کا ایک ہی سلسلہ ہے۔آزاد ہند حکومت کے بانی مولانا برکت اللہ بھوپالی تو آزادہند لیگ کے راس بہاری بوس تھے۔ اگرچہ آزاد ہند فوج کی بنیاد یکم ستمبر 1942ء کو رکھی گئی تھی مگر اس کو نیتاجی سبھاش چندر بوس نے نئے سرے سے منظم کیا، نیتا جی سے پہلے اور ان کی سربراہی میں مسلمانوں نے اس میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔سبھاش چندر بوس کو جب آزاد ہند فوج کے لیے مالی تعاون کی ضرورت پڑی ا ور انہوں نے برما میںچندہ دینے کی اپیل کی تو فورا ٰـایک مسلمان عبدالمجیب مارخانی نامی تاجر ان سے ملنے آیا اور نیتا جی نے ان سے کہاکہ ہم آزاد ہند بنک کھولنا چاہتے ہیں تو تاجر نے پوچھا کہ کتنا روپیہ چاہیے ؟تو نیتاجی نے جواب دیا کہ پچاس لاکھ ،چنانچہ عبدالمجیب مارخانی نے اپنے پاس سے ایک کروڑ34؍ لاکھ کا چندہ 9؍جولائی 1944کو رنگون سٹی ہا ل میں دیا ،ان کی بیگم نے بھی اپنے تمام زیورات اور جواہرات دے دئیے۔عبدالمجیب مارخانی کے بعد دوسرا سب سے بڑا عطیہ سیٹھ حبیب اللہ نے دیا جو پنجاب سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے ایک کروڑ روپے کا چندآزاد ہند فوج کو دیاتھا ،اس پر نیتا جی نے ان کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اصل سیوک تو یہ ہے جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کا سر فخر سے اونچا کردیا اور جب یہ دوبارہ 21 ؍جولائی کو رنگون سٹی میں آئے تو جو مالا ئیں نیتاجی کے گلے میں ڈالی گئی تھی، اسے نیلام کیا گیا جسے بیگم عبدالمجیب مارخانی اور بیگم آدم جی دائود نے کئی لاکھ میں خریدہ ،اس وقت احمد ابراہیم اینڈ برادرس نے 30 ؍لاکھ روپے اور حاجی دائوداینڈ کمپنی نے15 ؍لاکھ روپے دئیے اور جب نیتا جی بہادرشاہ ظفر کے مزار پر گئے تو حبیب سیٹھ نے 5 ؍لاکھ روپیہ چندہ دیا اور میمن برادری کے خواتین و حضرات سے چھ کرو ڑ روپے دلوائے ۔ان کی تصدیق آزاد ہند فوج کے لیفٹننٹ ناگ نے دہلی میں اپنے اوپر چلنے والے مقدمہ میں کی تھی۔


آزاد ہند فوج کے چند اعلیٰ افسران:

میجر عابد حسن: جرمنی میں آزاد ہند فوج کا سب سے پہلا ممبر عابد حسن ساکن حیدر آباد تھے جو وہاں میڈیسن کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔انکے اثیار اور قربانی کے جذبہ کو دیکھ کر نیتا جی نے انہیں میجر بنا یا ۔قا بل غور بات یہ ہے کہ اہل ہند کو ’’جے ہند‘‘کے نعرہ سے روشنا س کرانے کا سہرا میجر عابد حسن کو ہی جاتا ہے۔جناب حسن جو آزاد ہند فوج (جرمنی )کے انڈرافیسر اورآزاد ہند فوج (برطانوی )میں ایل ۔سی ۔او۔ تھے ، وہ سبھاش چندر بوس کے ہمراہ جرمنی گئے تھے ۔

جنرل شاہ نواز خاں

میجر جنرل شاہ نواز خاں ایک عظیم وطن پرست اور نیتاجی سبھاش چندر بوس کے بے حد قریبی ساتھی تھے۔ جنہیں لال قلعہ پر لہرا رہے یو نین جیک کو اُتار کر وہاں پہلا ترنگا لہرانے کا شرف حاصل ہے ۔ یہ راولپنڈی کے ایک فوجی خاندان کے چشم وچراغ تھے ۔انگریزوں نے جاپانیوں کے خلاف سنگا پورا ورملایا کے مورچوں پر جس پنجاب رجمنٹ کو دوسری عالمی جنگ بھیجا تھا ،اس میں یہ کپٹن کے عہدے پر فائزتھے۔ ہندوستان پریلغار کے وقت نیتاجی نے جو حکم دیا تھا۔اس سے نیتاجی او ر جنرل شاہ نواز کی قربت کے اظہار ہوتا ہے ۔’’آزاد ہند فوج کی عارضی حکومت کے حکم پر آپ ہندوستان سے آخری لڑائی لڑنے جارہے ہیں ،میں حملہ آور فوج کی کمان شاہ نواز کے ہاتھوں میں سونپتا ہوں۔شاہ نواز خاں آزاد ہندوستان کے پہلا ریلوے وزیر تھے۔


کرنل حبیب الرحمن

یہ کشمیر ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔انہیں نیتا جی نے ٹر یننگ اسکول کا آفیسر مقر ر کیاتھا انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود سینکڑوں آفیسرس کو ٹریننگ سے آراستہ کیا ۔نیتا جی نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کو عارضی حکومت میں وزیر بنایا بنایا تھا ۔ نائب چیف آف اسٹاف کے فرائض بھی انہوں نے انجا م دیے۔15؍اگست 1945ء کو جب جاپانی فوج نے ہتھیار ڈالے تو 16؍اگست کو نیتا جی جاپانی حکام کے ساتھ جہاز میں روانہ ہوئے، تو کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف دو ہندوستانی سوار تھے ایک نیتا جی اور دوسرے کرنل حبیب الرحمن۔جب فارموسا طیارہ گا ہ پر اڑان کے وقت جہاز میں آگ لگ گئی تھی اور آ گ نے نیتا جی کے کپڑوںکو پکڑا تو انہیں بچانے کے چکرمیںکرنل صاحب کا چہرہ اور دایاں ہاتھ جھلس گیا تھا۔19؍نومبر کو انہیں ٹوکیو سے گرفتار کرکے دہلی لایا گیا اور لا ل قلعہ میں قید کردیاگیاانہیں22؍ اپریل1946 ء کو رہائی حاصل ہوئی۔

میجر جنرل عزیز احمد خاں

آپ راولپنڈی کے مشہور فوجی خاندان کے رکن تھے ۔آپ پنجاب رجمنٹ میں میجر کے عہدے پر فائزتھے۔آپ نے آزاد ہند فوج کو مضبوط کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ڈویژن کی کمان آپ کے سپر د تھی جبکہ کرنل عنایت کیانی اور شاہ نواز بر یگیڈیر تھے ۔عارضی حکومت میں آپ کو بھی وزیر بنایا گیا تھا۔جب برٹش نے سنگا پور پر تسلط قائم کیاتو ان کی گرفتاری عمل میں آئی ۔انگریزوں کے ہاتھوں قید وبند کی تکالیف اٹھا کر اپریل 1946ء کو رہا ہوئے۔


کرنل احسان قادر

آپ پنجاب کے مشہور ادیب عبد القادر ملک کے فرزند تھے ۔آپ نے 39تا1941ء ملایا کے مورچہ پر بڑی خدمات انجام دیں ۔بعد ازیں آزاد ہند فوج میں شمولیت اختیار کی اور جمیل خاں وزیر نشرو اشاعت کی فہمائش پر سنگاپور جاکر آزادہند ریڈیو قائم کیا ۔جس کی3 ؍فروری 1943ء تک نشریات جاری رہی، حکومت ہند نے اس کی نشریات کو سننا ممنوع قرار دے دیا تھا۔آزاد ہند فوج کی فتوحات کا جب آغاز ہوا اور جنرل چڑجی کو گورنر بنایا گیا تو مفتوح علاقوں کا انتظام کے واسطہ آزادہند دل بنایاگیا تو اس کے پہلے کمانڈر ان کو بنایاگیاتھا۔اس کے علاوہ نیتا جی نے فرقہ وارانہ مسائل کا حل کرنے کی کمیٹی کے کنونیر ان کو بنایا تھا،انہوں نے ایسے پروگرام مرتب کئے جو ہندو مسلم اور سکھوں سب نے تسلیم کیا۔ سقوط جاپان کے بعدیہ بھی گرفتار ہوئے26؍اپریل1946 ء کو لال قلعہ سے رہا ہوئے۔

کرنل محبوب احمد

محبوب احمد ساکن پٹنہ نے اپنی تعلیم دہرادون میں انڈین ملٹری اکیڈمی سے مکمل کی اور 1939 ء میں بطور کیپٹن ہندوستانی فوج میں شمولیت اختیار کی۔بعد ازاں 1941 ء میںراس بہاری بوس کے زیر کمان انڈین نیشنل آرمی میں شامل ہوگئے۔ نتیا جی نے 1943 ء انہیں ترقی دے کر کرنل کے عہد ہ پر مامور کردیا اور کچھ عرصہ بعد آئی این اے کا ’آرمی سیکرٹری‘ بنادیا ۔ 1945 ء میں آئی این اے کے دیگر افسران کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ محبوب احمد کو لال قلعہ میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔


کرنل عنایت اللہ حسن

کرنل عنایت حسین نے آزاد ہند فوج میں ضاکار کی خدمت انجام دی۔جون 1944 ء کو انہیں جنرل اسٹاف ہیڈ کوارٹر کا مہتم بنایا گیا تو انہوں نے تقربیا ًچار ہزار نئے اور چھوٹے افسران کو ٹرینڈ کیا ۔

ویسے تو بے شمار مسلمانوں نے آزادہند فوج کے لیے اپنی قربانیاں پیش کی مگر 122؍ایسے مرد مجاہد افسران تھے جو برما ،منی پور اورامپھال کے محازوں پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور 22؍افسران بشمول ڈاکٹر ضمیر الحق کو کورٹ مارشل کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔جن کی قربانی آج تاریخ ہند کے گرد آلود ہ صفحات میں گم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔