'کالعدم تنظیم کے ارکان کے خلاف بھی ہوگی کارروائی'، یو اے پی اے قانون پر سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

یو اے پی اے کے معاملے پر ایک اہم فیصلے میں سپریم کورٹ نے اپنے 2011 کے فیصلے کو پلٹ دیا اور کہا کہ جو شخص ممنوعہ تنظیم کا رکن پایا جاتا ہے اسے بھی یو اے پی اے کے تحت مجرم قرار دیا جائے گا

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ آف انڈیا نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ترمیمی ایکٹ 2008 (یو اے پی اے) کے ایک معاملہ میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص ہندوستان میں کالعدم تنظیم کا رکن پایا جاتا ہے تو بھی اسے یو اے پی اے کے تحت ملزم قرار دیتے ہوئے کارروائی کی جائے گی۔ جسٹس ایم آر شاہ، جسٹس سی ٹی روی کمار اور سنجے کرول کی تین رکنی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا۔

اس فیصلے کے ساتھ ہی انہوں نے 2011 میں سپریم کورٹ کے جسٹس مارکنڈے کاٹجو اور گیان سدھا مشرا کے فیصلے کو تبدیل کر دیا، جس میں انہوں نے کالعدم تنظیم الفا کے ایک رکن کو ضمانت دی تھی۔

ضمانت منظور کرتے ہوئے دو ججوں کی بنچ نے مشاہدہ کیا تھا ’’محض کالعدم تنظیم کی رکنیت کسی شخص کو مجرم نہیں بناتی جب تک کہ وہ تشدد کا سہارا نہ لے یا لوگوں کو تشدد پر نہیں اکساتا، یا لوگوں کو تشدد کے لئے مشتعل کر کے عوامی انتشار پھیلانے کی کوشش نہیں کرتا۔


سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے 2011 کے فیصلے کو پلٹتے ہوئے کہا کہ 2011 میں دیا گیا فیصلہ ضمانت دینے کے حوالے سے تھا لیکن اس میں بھی آئین کی اخلاقیات پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے سابقہ فیصلوں میں یو اے پی اے اور ٹاڈا کے آئینی جواز کو برقرار رکھا تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا ’’جس دن بنچ نے یہ فیصلہ دیا، اس دن سماعت کے دوران جمہوریہ ہند کا کوئی بھی نمائندہ ریاست کی نمائندگی کے لیے موجود نہیں تھا۔ بنچ نے جمہوریہ کی بات سنے بغیر اپنا فیصلہ سنا دیا جس سے بچا جا سکتا تھا۔‘‘ بنچ نے کہا ’’جب یونین کی غیر موجودگی میں پارلیمانی قانون کو عدالت میں پڑھا جاتا ہے اور اس پر فیصلہ دیا جاتا ہے، تو اس سے ریاست کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔