کولکاتا ریلی سے بی جے پی بے چین، ہار کے خدشے سے بھگوا خیمے میں کھلبلی

کولکاتا میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی قیادت میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد کا ابھی’ٹریلر‘ ہی لانچ ہوا ہے، پوری پکچر ابھی باقی ہے، لیکن ابھی سے مودی کی پیشانی پر بل پڑ گئے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

لوک سبھا انتخابات ہونے میں اب محض 100 دنوں کا ہی وقت بچا ہے اور مودی سمیت تمام بھگوا خیمہ کا اعتماد ڈانواڈول ہونے لگا ہے۔ 2019 میں ’کانگریس مکت بھارت ‘ کا خواب دیکھنے والے مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی دونوں بے چین ہیں اور ہڑبڑی میں بے تکے بیان بازی پر اتر آئے ہیں۔ وہیں خود مودی نے بھی ایک مرتبہ پھر سے تقسیم کاری کی سیاست کے اشارے دیئے ہیں۔

تجزیہ کاروں پر یقین کریں تو اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، مہاراشٹر، کرناٹک جیسی ریاستوں میں جہاں اتحاد کی صورت تقریباً صاف ہو چکی ہے اور بی جے پی کو بھاری نقصان ہونے والا ہے۔ اس کے علاوہ 45 فیصد سیٹوں والے ’ہندی ہارٹ لینڈ ‘ کا دل بھی اس مرتبہ بی جے پی کے لئے نہیں دھڑکنے والا۔

سیاسی طور سے ملک کی اہم ترین ریاست اتر پردیش میں بی جے پی کو 50 سے زائد سیٹوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ ایس پی اور بی ایس پی کے ایک ساتھ آنے سے مانا جا رہا ہے کہ بی جے پی دہائی کا ہندسہ بھی مشکل سے پار کر پائے گی۔ گورکھ پور، کیرانہ اور پھولپور میں ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان تینوں سیٹوں پر بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ادھر بہار میں آر جے ڈی کی قیادت میں پہلے سے ہی ایک مضبوط بی جے پی مخالف محاذ تیار ہو چکا ہے۔ بی جے پی کے سابق اتحادی آر ایل ایس پی کے رہنما اوپیندر کشواہا اور ہندوستانی عوامی مورچہ کے جیتن رام مانجھی کے جانے سے مہا گٹھ بندھن کی طاقت بڑھ گئی ہے۔ حالانکہ جے ڈی یو-ایل جے پی ابھی بھی بی جے پی کے ساتھ ہیں لیکن اس کا فائدہ اب بی جے پی کو ملنے کے آثار کم ہی ہیں۔

مہاراشٹر کی بات کریں تو وہاں کسان اور دلت تحریکوں کے بعد بی جے پی مخالف ماحول تیار ہو گیا ہے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد نے بھی بی جے پی کو پریشان کیا ہوا ہے۔ کئی چھوٹی پارٹیاں بھی اتحاد کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں، جیسے کہ اس بات کے اشارے مل رہے ہیں اگر شیو سینا اور راج ٹھاکرے کی ایم این ایس بی جے پی سے علیحدہ انتخابات لڑتی ہیں تو بھگوا پارٹی کو بھاری نقصان ہوگا۔

جنوبی ہندوستان میں بھی بی جے پی کی حالت خستہ ہے۔ کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے ایک ساتھ آنے سے حالات بی جے پی کے خلاف ہو چکے ہیں اور دیگر ریاستوں میں پہلے بھی بی جے پی کو کوئی نہیں پوچھتا۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر لوک سبھا 2019 کے نتائج کا اندازہ لگایا جائے تو بی جے پی محض 6 سیٹوں تک محدود رہ سکتی ہے۔

بات ہندی بیلٹ کی ہے جس میں 10 ریاستیں شامل ہیں جنہوں نے بی جے پی کی 2014 میں جیت ہموار کی تھی۔ اگر بہار اور اتر پردیش کو الگ کر دیا جائے جہاں سیاسی پارٹیوں میں اتحاد ہوچکا ہے، تو بھی دیگر ریاستوں جیسے راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، ہماچل پردیش اور ہریانہ سے بھی بی جے پی کو برے اشارے مل رہے ہیں۔

ادھر شمال مشرق میں شہریت بل کی وجہ سے بی جے پی کی حالت خستہ ہونے جا رہی ہے۔ بل کی مخالفت کرتے ہوئے بی جے پی کی قیادت والی نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنز کے کئی اتحادی یا تو الگ ہو چکے ہیں یا الگ ہونے کی فراق میں ہیں۔ وہیں آسام گن پریشد نے بھی بی جے پی سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔

ادھر 42 سیٹوں والے مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کی راہ آسان نہیں ہے۔ ایک طرف تو ممتا بنرجی کی حیثیت کا کوئی رہنما بی جے پی کے پاس نہیں ہے دوسرا صوبے کی کل آبادی میں مسلمانوں کا 28 فیصد حصہ ہے، جو ہر حال میں بی جے پی کے خلاف ووٹ کریں گے۔

ظاہر ہے کہ 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کے سر پر ہر طرف سے ہار کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی اور ان کے جوڑی دار امت شاہ نے جس طرح سے پارٹی اور حکومت کے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اس سے نہ صرف بی جے پی کے لوگ بلکہ ان کے اتحادیوں کا بھی دم گھٹنے لگا ہے۔

اس کے علاوہ مودی حکومت کی طرف سے لئے گئے کچھ فیصلے ایسے ہیں جو اسے کہیں کا نہیں چھوڑیں گے ۔ مودی حکومت کے زوال کی شروعات 8 نومبر 2016 کو ہوگئی تھی جب آدھی رات کو بغیر کسی اطلاع مودی حکومت نے نوٹ بندی کو مسلط کر دیا تھا۔ اس اعلان نے کسانوں، متوسط اور چھوٹے کاروباریوں کو تباہ کردیا۔ رہی سہی کسر جی ایس ٹی نے پُر کر دی۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے تاجر اور کسان طبقہ بی جے پی سے درو ہو گیا ہے، جس کا سیدھا اثر 2019 انتخابات پر ہوگا۔

اس کے علاوہ دلتوں کے ساتھ ظلم و ستم، مسلم نوجوانوں کے فرضی انکاؤنٹر اور گئو رکشکوں کی دہشت گردی جیسے معاملوں نے مہا گٹھ بندھن کے لئے راہ ہموار کر دی ہے۔

اس کے علاوہ رافیل گھوٹالہ، میہل چوکسی، نیرو مودی اور مالیا کے ملک سے فرار ہونے کے واقعات نے مودی کی مبینہ بدعنوان مخالف شبیہ کا پردہ فاش کر دیا ہے اور آج ’چوکیدار ہی چور ہے‘ کا نعرہ گھر گھر میں پہنچ چکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔