طالبان صحیح یاغلط یہ مستقبل طے کرے گا، جو لوگ ان کو دارالعلوم سے جوڑ رہے ہیں وہ صحیح نہیں: مولانا ارشد مدنی

مولانا مدنی نے کہا کہ لوگ ہم سے یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ ہم طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں یہ بات سراسرغلط ہے، ہم تو کسی کے بارے میں بھی کوئی رائے نہیں رکھتے۔

مولانا ارشد مدنی تصویر / یو این آئی
مولانا ارشد مدنی تصویر / یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی: اس امید کا اظہار کرتے ہوئے کہ افغانستان میں جلد از جلد ایسی حکومت تشکیل پائے گی جو ملک کے تمام طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرے گی، صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ طالبان صحیح ہیں یاغلط ہے یہ مستقبل طے کرے گا اور یہ اطلاعات خوش آئند ہیں کہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے افغانستان کے موجودہ تناظرمیں میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کچھ لوگ طالبان کو دیوبند اور دارالعلوم سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں جبکہ میرے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے اور اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ طالبان حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی طرف اپنے کو منسوب کرتے ہیں اور چوں کہ حضرت شیخ الہندؒ دیوبند کے رہنے والے تھے، دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین تھے اور اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم تھے، انگریزوں سے دشمنی ان کے رگ و ریشہ کے اندر سرایت تھی، اس لئے انگریزوں نے ان کو پکڑا اور ان کو مالٹا کی جیل میں بند کیا، وہ چار سال مالٹا کی جیل میں رہے۔ ہندوستان میں انگریز حکومت کے خلاف سب سے پہلے شیخ الہندؒ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے افغانستان کے اندر اس وقت آزاد حکومت قائم کی تھی جس کا صدر مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو بنایا تھا، مولانا برکت اللہ صاحب بھوپالی کو وزیر اعظم اور اپنے ہونہار شاگرد مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو وزیر خارجہ بنایا تھا۔


مولانا مدنی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آج جو طالبان ہیں وہ اصل میں حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک سے جڑے ہوئے ان لوگوں کی اولاد ہیں جو آزادی ہند کے لئے جدوجہد کررہے تھے یا ان کی اولاد کی اولاد ہیں، اس لئے طالبان ان کو اپنا امام مانتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ جس طرح حضرت شیخ الہندؒ نے اپنی ساری زندگی ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کی جو انگریز جیسی غیرملکی طاقت کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا، آج ہم بھی ان کے راستہ پر چل رہے ہیں، اصل حقیقت صرف اتنی ہی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ لوگوں کا یہ کہنا کہ وہ دیوبند کے پڑھے ہوئے ہیں، درست نہیں ہے، کیونکہ ملک کی آزادی سے پہلے تو لوگ پڑھتے تھے، اور میری معلومات کے مطابق آج ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہے، یہ لوگ وہ ہیں جو ان سے پڑھے ہوئے ہیں اور ان کے شاگرد ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے صدرالمدرسین مولانا مدنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ طالبان کے یہ کہنے کی بنیاد صرف اتنی ہے کہ جس طرح شیخ الہندؒ نے ملک کی آزاد ی کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا اور شاگردوں کی ایک ایسی فوج کھڑی کردی، جنہوں نے 10،10 سال جیلوں کے اندر گزارے اور پھر ملک کو غیر ملکی طاقتوں سے آزاد کرایا، ہم بھی اپنے ملک کو غیروں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لئے کام کر رہے ہیں، تو گویا کہ جو مشن ان کا تھا اور جس کے لئے زندگی بھر کام کرتے رہے، ہم بھی اسی لائن پر چل رہے ہیں۔


مولانا مدنی نے کہا کہ لوگ ہم سے یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ ہم طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں یہ بات سراسرغلط ہے، ہم تو کسی کے بارے میں بھی کوئی رائے نہیں رکھتے، یہ تو مستقبل بتائے گا کہ ان کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے اور اپنے ملک کے نظام کو کس طرح چلاتے ہیں، ملکی دستور میں شریعت اسلامی کو حاکم بناتے ہیں یا نہیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی حکومت کی پائیداری کے لئے دو بڑی بنیادیں ہیں۔

پہلی یہ کہ قومی یکجہتی اور بھائی چارہ ہو، شہریوں کے درمیان مساوات ہو، اقلیت اور اکثریت کے درمیان امتیاز نہ ہو، مسلکی منافرت نہ ہو، لہٰذا اگر وہ اقلیت اور اکثریت کے لئے ایک پیمانہ رکھتے ہیں اور ان کو معاشی، تعلیمی اور دوسرے شہری حقوق دیتے ہیں، تو ہم ان کی تعریف کریں گے، اسی طرح سے اگر وہ ملک میں امن و امان کے قیام کو یقینی بناتے ہیں اور ہر شہری کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں اور ہر شہری کو یکساں حقوق فراہم کرتے ہیں تو ہم تالی بجائیں گے اور ہم کہیں گے کہ یہ اسلامی انقلاب ہے اور اگر اس طریقہ پر نہیں چلتے ہیں، تو دنیا ان کی مخالف ہوگی، ہم بھی اسی لائن کے اندر کھڑے ہوں گے۔


مولانا مدنی نے طالبان کو اور ملا عمر کو دیوبند سے جوڑے جانے کے بارے میں کہا کہ دنیا میں جو لوگ بھی دارالعلوم سے براہ راست یا بالواسطہ پڑھ کر گئے ہیں وہ اپنے ملک میں اپنے اپنے طریقے سے دین کا کام کر رہے ہیں، اس وقت طالبان تنہا وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم آزادیٔ وطن کے لئے لڑ رہے ہیں، جس طرح ہمارے ملک کے اندر آزادئ وطن کے لئے جد وجہد ہوئی اسی طرح وہ بھی کر رہے ہیں، طالبان کا تعلق ایسی غیور قوم سے ہے جس نے کبھی بھی کسی غیر کے تسلط کو قبول کیا ہی نہیں، اور وہ اپنی اس آزادئ وطن کی جدوجہد کو دیوبند سے جوڑتے ہیں۔

حکومت کی طرف سے دیوبند میں ATS کے ٹریننگ سینٹر بنائے جانے کے اعلان پرمولانا مدنی کہا کہ فرقہ پرستی کی ہوا چل رہی ہے، ایسا کہا جاتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند دہشت گردی کا اڈہ ہے، لیکن ہماری تعلیمات تو کھلی ہوئی ہیں، 24 گھنٹے دروازے کھلے رہتے ہیں، ہمارے اسباق میں کسی کے بیٹھنے پر کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے، کوئی آکر سبق سن سکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے ہم کیا پڑھاتے ہیں، رات دن ایسے لوگ بھی ہیں جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں، ہمیں خبر ملتی ہے کہ وہ مخبر ہیں، لیکن ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی، ہم تو جو سبق دیتے ہیں وہ میل و ملاپ کا سبق ہے، مذہب سے اوپر اٹھ کر ہر آدمی کے ساتھ میل و ملاپ کا سبق ہم دیتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ گورنمنٹ اے ٹی ایس کا دیوبند میں مرکز بنانے جا رہی ہے، ہم کہتے ہیں کہ گورنمنٹ کو اس کا اختیار ہے، وہ جو چاہے کرے، ہمارے اوپر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا، جو ہم پڑھاتے ہیں وہ چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن ہے، جس کا جی چاہے ہمارے سبق کے اندر بیٹھ جائے، ہم تو پیار ومحبت ہی کی تلقین کرتے ہیں، اور اسلام دنیا میں جو جنگل کی آگ کی طرح پھیلا ہے وہ کسی سے دشمنی کرکے تھوڑی پھیلا ہے، وہ تو پیار و محبت ہی کے ساتھ پھیلا ہے، دنیا کی ہر قوم نے اس کو قبول کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔