گجرات: حملوں کے بعد یو پی، بہار، ایم پی کے لوگوں کے بھاگنے کا سلسلہ شروع

گجرات میں باہری ریاستوں بالخصوص یو پی اور بہار کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اب گجرات ریاست سے نکلنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

گجرات میں ایک بچی کی عصمت دری کے بعد غیر گجراتیوں پر حملے بڑھ گئے ہیں جس کے بعد یو پی، بہار اور ایم پی کے لوگوں کا وہاں سے بھاگنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ نے اس حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے۔

احمد آباد کے چانکیہ فلائی اوور کے نیچے بس کا انتظار کر رہے کچھ دوسری ریاستوں سے وابستہ لوگوں نے ’انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ مکان مالکان نے ان سے گھر خالی کرنے کو کہہ دیا تھا۔ قبل ازیں، گجرات پولس نے باہری ریاستوں بالخصوص یو پی اور بہار سے وابستہ لوگوں پر حملے کے الزام میں تقریباً 180 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

واپس جانے کے لئے بس کا انتظار کر رہی مدھیہ پردیش کے بھنڈ ضلع کی رہنے والی راجکماری جاٹو نے کہا، ’’میرے بچے 4 اکتوبر کو گلی کے باہر کھیل رہے تھے تبھی ایک ہجوم نے حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے بچے ابھی تک صدمہ میں ہیں۔ اپنے چار سال کے ایک بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے گئی تاکہ علاج کے ذریعہ اس کی گھبراہٹ کم ہو سکے۔‘‘

راجکماری کے تین بچے اور اس کا شوہر احمدآباد کے چاندلودیا علاقہ میں واقعہ باہری لوگوں کی کالونی مہادیو نگر میں رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ان کے کئی پڑوسی بھی گجرات کو چھوڑ کر اپنے وطن جا رہے ہیں۔

بھنڈ کے ہی رہنے والے دھرمیندر کشواہا نے بتایا کہ گزشتہ کچھ دنوں میں یو پی، بہار اور مدھیہ پردیش کے تقریباً 1500 لوگ گجرات چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ کشواہا کے مطابق کچھ نقاب پوش لوگوں نے اس سے کہا کہ صبح 9 بجے سے پہلے گجرات چھڑ دے ورنہ اسے مار ڈالیں گے۔ ہفتہ کے روز پوری طرح سے بھری 20 بسوں سے یو پی، بہار اور ایم پی کے لوگ یہاں سے روانہ ہو گئے۔

42 سالہ ٹھیکیدار کرشنا چند شرما نے کہا، ’’میں گزشتہ 22 سالوں سے احمدآباد میں رہ رہا ہوں، ایسے حالات تو کبھی نہیں رہے، مجھے تو یاد نہیں۔ یہاں جب ہندو-مسلم فساد ہوئے پھر بھی ایسا نہیں ہوا کہ لوگ ہجرت کے لئے مجبور ہوں۔ خبر فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلی جو اب سب کے فون میں موجود ہے۔‘‘

گاندھی نگر میں پینٹنگ کا کام کرنے والے منجو سنگھ نے کہا کہ ان کی بائیک جمعرات کی شام روکی گئی، اور سات لوگوں نے مجھ سے پوچھا میں کہاں کا رہنے والاہوں، دل میں آیا کہ جھوٹ بول دوں، لہذا میں نے خود کو راجستھان کا بتایا۔ انہوں نے مجھ سے کئی اور سوال کیے جن کا میں جواب دیتا رہا، جیسے گاؤں کون سا ہے ضلع کا نام کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان لوگوں نے مجھے وہاں سے جانے دیا جب وہ پوری طرح مطمین ہو گئے کہ میرا تعلق یو پی، بہار یا ایم پی سے نہیں ہے، میرے جانے کے بعد ان لوگوں نے اسی جگہ پر ایک گاڑی کو نذر آتش کر دیا۔ ‘‘

28 ستمبر کو جس معصوم بچی کا بہار کے ایک شخص نے مبینہ طور پر اپنی ہوس کا شکار بنایا اسے ہفتہ کے روز اسپتال سے چھٹی دے دی گئی ہے، اس کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔ ملزم کو واردات کے روز ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */