بنگلہ دیش: انجینئرنگ کے 21 سالہ طالب علم کا قتل، شدید احتجاج و مظاہرہ

بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ میں بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ایک طالب علم کے قتل کے بعد ملک بھر میں اسٹوڈنٹس کی جانب سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ میں بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ایک طالب علم کے قتل کے بعد ملک بھر میں اسٹوڈنٹس کی جانب سے شدید احتجاج کیا جارہاہے۔ ’بی بی سی‘کی رپورٹ کے مطابق 21 سالہ ابرار فہد کو سوشل میڈیا میں حکومت پر تنقید کرنے کے بعد چھٹی کے روز ہوسٹل میں مردہ پایا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ابرار فہد کے قتل کے شبہ میں بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ کی اسٹوڈنٹس ونگ سے تعلق رکھنے والے متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔بنگلہ دیش کی مشہور یونیورسٹی میں طالب علم کے قتل پرہر طر ف سوگ کا سماں ہے اور ہزاروں اسٹوڈنٹس نے احتجاج کیا جبکہ سرکاری یونیورسٹیوں میں رونما ہونے والے قتل کے واقعات بھی آشکار ہو رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عوامی لیگ کی اسٹوڈنٹس ونگ بنگلہ دیش چترا لیگ (بی سی ایل) پر طلبا پر تشدد اور ان سے بھتہ خوری کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں، تاہم حکومت نے یقین دلایا ہے کہ وہ ابرار فہد کے قتل کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے پر کھڑا کرے گی۔21سالہ ابرار فہد کی لاش بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ڈھاکہ میں اتوار کو برآمد ہوئی تھی۔


تجزیہ نگار میر صابر کا کہنا تھا کہ سرکاری یونیورسیٹیوں میں حکمران جماعت کے اسٹوڈنٹ ونگ کارکنوں کی جانب سے تشدد کا واقعہ بنگلہ دیش میں کوئی نئی بات نہیں ہے، یونیورسیٹیوں میں داخل ہونے والے نئے طلبا کو اپنے پروگراموں اور ریلیوں میں شرکت کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یونیورسیٹیوں کے اندر لیڈروں کی باتوں سے اختلاف کرنے یا اپنی رائے رکھنے والے طلبہ کی مار پیٹ معمول ہے۔

میر صابر کا کہنا تھا کہ جب 2018 میں اسکول کے بچوں نے روڈ سیفٹی پر احتجاج کیا تھا تو ہیلمٹ پہنے نامعلوم افراد نے انہیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کا ذمہ دار ’بی سی ایل‘ کے کارکنوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ 2018 میں ہی بی سی ایل کے کارکنوں نے راج شاہی یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر حملہ کیا تھا اور ایک طالب علم کو ہتھوڑے سے مارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی تھی۔عوامی لیگ کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ یہی سوچنے کا وقت ہے کہ کیا اس طرز کی سیاست کی حمایت کرنی چاہیے۔ دوسری جانب ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں طلبہ نے سڑکوں پر احتجاج کیا اور نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں کو بلاک کردیا اور مسلسل دوسرے روز بھی ابرار فہد کے قاتلوں کو گرفتار کرنے، سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ہونے والے احتجاج میں یونیورسٹی کے سابق طلبا اور ٹیچنگ اسٹاف نے بھی شرکت کی۔ یونیورسٹی کی ٹیچرز ایسو سی ایشن کے صدر اے کے ایم مسعود نے کہا’’یونیورسٹی کے رہائشی ہال میں ایک طالب علم کا تشدد سے قتل ناقابل قبول ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’ابرار فہد کے قتل سے واضح ہوگیا ہے کہ حکمران اسٹوڈنٹس کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں‘‘۔

خیال رہے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پر اپوزیشن پارٹیوں اور اپنے سیاسی حریف اراکین کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے کئی رہنماؤں کو گزشتہ چند برسوں میں پھانسی بھی دی جاچکی ہے جس پر عالمی سطح پر کئی ممالک کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد ابرار فہد کے ہاسٹل سے 9 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے 5 کا تعلق بی سی ایل سے ہے۔


پولیس کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 13 افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں اور یہ تمام یونیورسٹی سے ہی حراست میں لیے گئے ہیں۔ ڈھاکہ کے ڈپٹی پولیس کمشنر منتصرالاسلام نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالب کو تشدد کرکے قتل کیا گیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق بی سی ایل اراکین کا کہنا تھا کہ ابرار فہد کو ایک اسلامی پارٹی سے تعلق کے شبہ میں سوالات کئے گئے تھے اور تشدد بھی کیا گیا تھا۔ بی سی ایل نے ایک بیان میں کہا کہ تحقیقات کے بعد بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں تنظیم کے 11 اراکین کو نکال دیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */