مفاد پرست لیڈران ماحول میں فرقہ پرستی کی زہر گھول رہے ہیں: منموہن سنگھ

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں سیاسی مخالفت اور انتخابی سیاست میں مذہبی عناصر، علامات، بیانات اور تعصبات کی موجودگی سے آئین کی سیکولر شکل کے تحفظ کی ضرورت کافی بڑھ گئی ہے۔

تصویر وشو دیپک
تصویر وشو دیپک
user

قومی آوازبیورو

راجدھانی دہلی میں 25 ستمبر کو سی پی آئی کے ذریعہ منعقد ’سیکولرزم اور جمہوریت کا تحفظ‘ عنوان سے منعقد دوسرے اے بی بردھن لیکچر سے کطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا کہ سیکولرزم آئین کی بنیادی روح ہے اور ایک ادارہ کی شکل میں عدلیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئین میں موجود سیکولرزم کی روح کو تحفظ فراہم کرے۔ یہ اس کی پہلی ذمہ داری بھی ہے جسے عدلیہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

سابق وزیر اعظم نے خطاب کے دوران کہا کہ موجودہ دور میں سیاسی مخالفت اور انتخابی سیاست میں مذہبی عناصر، علامات، بیانات اور تعصبات کی موجودگی سے آئین کی سیکولر شکل کے تحفظ کی ضرورت کافی بڑھ گئی ہے۔ ملک کے فوجیوں کو بھی مذہبی اپیلوں سے خود کو اچھوتا رکھنے کی بے حد ضرورت ہے کیونکہ ہندوستانی مسلح افواج ملک کی شاندار جمہوری شکل کا ناقابل فراموش حصہ ہیں۔

خطاب کے دوران منموہن سنگھ نے بابری مسجد انہدام سے متعلق بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ 1990 کی دہائی کے آغاز میں سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں کے درمیان اکثریت اور اقلیت کے وجود سے متعلق شروع ہوا جھگڑا بے قابو سطح تک پہنچ گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بابری مسجد پر سیاسی لیڈروں کے جھگڑے کا اختتام سپریم کورٹ میں ہوا اور ججوں کو آئین کی جمہوری شکل کو پھر سے متعارف کر بحال کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’6 دسمبر 1992 کا دن ہماری سیکولر جمہوریت کے لیے افسوسناک دن تھا اور اس سے ہماری سیکولر عزائم کو گہرا دھچکا پہنچا۔‘‘ منموہن سنگھ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے ایس آر بومئی معاملے میں سیکولرزم کو آئین کی بنیادی شکل کا حصہ قرار دیا۔ لیکن افسوسناک ہے کہ یہ حالات بہت کم وقت تک ہی رہ پائے کیونکہ بومئی فیصلہ کے کچھ وقت بعد ہی ’ہندوتوا کو طرز زندگی‘ بتانے والے جسٹس جے ایس ورما کا مشہور لیکن ایک متنازعہ فیصلہ آ گیا۔ اس فیصلے کا جمہوری نظام میں سیکولر اصولوں کو لے کر سیاسی پارٹیوں کے درمیان چل رہی بحث پر نتیجہ خیز اثر پڑا۔

منموہن سنگھ نے انسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد اس تقریب میں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کی دور اندیشی اور دانشورانہ صلاحیتوں کے باوجود کوئی بھی آئینی نظام صرف عدلیہ کے ذریعہ محفوظ نہیں کی جا سکتی ہے۔ آخری طور پر آئین اور اس کے سیکولر عزائم کے تحفظ کی ذمہ داری سیاسی قیادت، شہری سماج، مذہبی لیڈروں اور ملک کے دانشور طبقہ کی ہے۔ انھوں نے آگاہ کیا کہ نابرابری اور تفریق کی صدیوں پرانی روایت والے اس ملک میں سیکولرزم کے تحفظ کا مقصد حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔

سابق وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ سماجی تفریق کی واحد بنیاد مذہب ہے۔ کبھی کبھی ذات، زبان اور جنس کی بنیاد پر حاشیے پر پہنچے بے بس لوگ بھی تشدد، تفریق اور ناانصافی کا شکار ہوتے ہیں۔ منموہن سنگھ نے کہا کہ ’’ہمیں بلاشبہ یہ سمجھنا چاہیے کہ اپنی جمہوریت اور سیکولرزم کی اصل شکل کو کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش وسیع پیمانے پر یکساں حقوق والی سوچ کو بحال کرنے کی ہر کوشش کو ناکام کر دے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔