شرد پوار نے 1996 میں ہی کہہ دیا تھا کہ ’بی جے پی تقسیم کرنے والی پارٹی ہے‘، ہمیں اسے 2019 میں سمجھ پائے: شیوسینا

شیوسینا ترجمان سنجے راؤت نے شرد پوار کے 81ویں یوم پیدائش سے ایک دن قبل 11 دسمبر کو مراٹھی کتاب کی رسم رونمائی کے موقع پر کہا کہ پوار نے 1996 میں ہی کہہ دیا تھا کہ بی جے پی تقسیم کرنے والی پارٹی ہے۔

سنجے راؤت، تصویر یو این آئی
سنجے راؤت، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

شیوسینا ترجمان اور رکن پارلیمنٹ سنجے راؤت نے ہفتہ کے روز ایک تقریب میں واضح طور پر اعتراف کیا کہ این سی پی لیڈر شرد پوار نے بی جے پی کو 1996 میں ہی تقسیم کرنے والی پارٹی قرار دے دیا تھا، لیکن شیوسینا کو یہ بات 2019 میں سمجھ میں آئی۔ راؤت نے پوار کو دوراندیش سیاسی لیڈر قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے مہاراشٹر اور ملک کو ایک سمت عطا کی ہے اور تقریباً 25 سال پہلے ہی انھوں نے اس بات کی تنبیہ دے دی تھی کہ بی جے پی کی پالیسیاں تقسیم کرنے والی ہیں جس نے ملک کے اتحاد کو رخنہ انداز کر دیا تھا۔

سنجے راؤت نے یہ بات شرد پوار کے اتوار (12 دسمبر) کو منائے جانے والے 81ویں یوم پیدائش سے قبل کی شام ایک مراٹھی کتاب ’نیم کیچھی بولانیانی سٹیک بات‘ کی رسم رونمائی کے موقع پر کہی۔ اس کتاب میں پوار کی 61 تقریروں کو جمع کیا گیا ہے جو انھوں نے مختلف سیاسی میٹنگوں کے دوران دی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کتاب کا عنوان اتنا مناسب ہے کہ اس کی کاپیاں وزیر اعظم نریندر مودی کو دی جانی چاہئیں تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ ’سٹیکتا‘ (عین مطابق) سے کس طرح بولا جا سکتا ہے۔


سنجے راؤت نے کہا کہ جو بات پوار نے 25 سال پہلے کہی تھی، وہ بہت ہی درست تھی، لیکن بدقسمتی سے ہمیں اسے سمجھنے میں دہائیوں لگ گئے۔ لیکن 2019 کے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے بعد ہم نے بی جے پی کو باہر کا راستہ دکھا دیا اور این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر مہا وکاس اگھاڑی اتحاد قائم کیا اور اس کی قیادت وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کی۔ سنجے راؤت نے کہا کہ پوار نے 1996 میں کہہ دیا تھا کہ بی جے پی کی پالیسیاں استحصال کرنے والی ہوتی ہیں جس نے ملک کو کافی پیچھے پہنچا دیا تھا۔ اس بات کا احساس لوگوں کو کافی وقت کے بعد ہوا۔

اس تقریب میں شرد پوار کی بیٹی اور این سی پی رکن پارلیمنٹ سپریا سولے، کانگریس اور شیوسینا کے کئی سینئر لیڈران موجود تھے۔ سنجے راؤت نے سبھی کے سامنے کہا کہ ایک وقت پارلیمنٹ کا مرکزی ہال مختلف پارٹیوں کی میٹنگوں کے لیے مشہور ہوا کرتا تھا، جہاں صحافی سرکردہ لیڈروں کے ساتھ بیٹھ کر ملک کے سامنے موجود اہم مسائل پر گفتگو کیا کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ جو صحافی سوال پوچھنے کی کوشش کرتے ہیں، انھیں خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اس طرح سوال پوچھنے کی روش پر روک لگانے سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔