راجدھانی میں 19 دنوں کے دوران 13000 کلو سے زیادہ پٹاخے ضبط، 75 کیسز درج: دہلی پولیس

پٹاخوں کی فروخت پر مکمل پابندی کے باوجود دہلی پولیس نے گزشتہ 19 دنوں میں قومی راجدھانی میں ذخیرہ اور فروخت کیے جانے والے 13000 کلو سے زیادہ پٹاخے ضبط کیے ہیں

آئی اے این ایس
آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: پٹاخوں کی فروخت پر مکمل پابندی کے باوجود دہلی پولیس نے گزشتہ 19 دنوں میں قومی راجدھانی میں ذخیرہ اور فروخت کیے جانے والے 13000 کلو سے زیادہ پٹاخے ضبط کیے ہیں۔ پولیس کی جانب سے فراہم کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق یکم اکتوبر سے 19 اکتوبر تک کل 13767.719 کلو پٹاخے ضبط کیے گئے، جنہیں ذخیرہ کرنے یا فروخت کرنے کے لیے رکھا گیا تھا اور پٹاخوں کی فروخت کے کل 75 واقعات درج کیے گئے۔

قومی راجدھانی میں پٹاخوں کی فروخت پر پابندی کے بعد سے پولیس ٹیم نے شہر بھر میں مختلف کارروائیوں میں غیر قانونی پٹاخوں کی فروخت، ذخیرہ کرنے اور سپلائی کرنے کے الزام میں متعدد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ پولیس ٹیمیں پٹاخوں کی فروخت پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہیں اور شہر بھر کی پولیس ٹیمیں بھی اچانک معائنہ کر رہی ہیں۔


انہوں نے کہا، ’’پولیس ٹیمیں پٹاخے بیچنے، ذخیرہ کرنے اور سپلائی کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کر رہی ہیں۔‘‘ خیال رہے کہ بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اور دیوالی کے پیش نظر دہلی حکومت نے بدھ کے روز اعلان کیا تھا کہ دیوالی کے موقع پر شہر میں پٹاخے پھوڑنے پر 6 ماہ تک کی قید اور 200 روپے جرمانہ ہوگا۔

دہلی کے ماحولیات کے وزیر گوپال رائے نے کہا تھا، "ہر قسم کے پٹاخوں کی تیاری، ذخیرہ اندوزی، فروخت اور استعمال پر فوری طور پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ساتھ ہی، اس بار دہلی میں پٹاخوں کی آن لائن خرید و فروخت پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے اور یہ پابندی یکم جنوری 2023 تک جاری رہے گی۔ پابندی کو سختی سے نافذ کرنے کے لیے دہلی پولیس، ڈی پی سی سی اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مشترکہ ایکشن پلان تیار کیا جائے گا۔‘‘


دریں اثنا، جمعرات کے روز دہلی ہائی کورٹ نے اروند کیجریوال کی زیرقیادت حکومت کی طرف سے قومی راجدھانی میں پٹاخوں پر مکمل پابندی کو چیلنج کرنے والی عرضی پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔ سبز پٹاخوں کی ذخیرہ اندوزی اور فروخت میں مصروف دو عرضی گزاروں نے دہلی کی آلودگی کنٹرول کمیٹی (ڈی پی سی سی) کے اس حکم کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔