مشن-2019 کے لئے اپوزیشن کا پلان-400 تیار

اگلے سال ہونے جا رہے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کو شکست دینے کے لئے اپوزیشن نے پلان-400 تیار کیا ہے۔ اس کے تحت 543 میں سے 400 سیٹوں پر بی جے پی کو سیدھے ٹکر دی جائے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کرناٹک میں کانگریس-جے ڈی ایس مخلوط حکومت کی حلف برداری تقریب میں جب ایک ہی پلیٹ فارم پر موجودہ لوک سبھا میں تقریباً 150 سیٹوں والے 13 صوبوں کے حزب احتلاف کے رہنما جمع ہوئے اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ملک کو نیا سیاسی پیغام دیا تو سیاسی تجزیہ کاروں نے اپوزیشن اتحاد کا تجزیہ شروع کر دیا۔ کچھ نے اسے فوٹو کے لئے محض رسم ادائیگی قرار دیا تو کچھ نے سیاسی ڈرامہ بازی۔ وہیں کچھ تجزیہ کاروں نے اسے ایک بڑی تبدیلی کی آہٹ سے تعبیر کیا۔ لیکن کرناٹک کے پلیٹ فارم سے شروع ہوئے اس میل-ملاپ نے اب 2019 کی جنگ کے لئے ایک مضبوط حکمت عملی کا روپ لے لیا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کے بیانوں، سیاسی گلیاروں میں چل رہے مباحثہ اور الگ الگ جماعتوں کے ذرائع کے مطابق 2019 کی اس حکمت عملی نے لوک سبھا کی 543 میں سے 400 ایسی سیٹوں کی نشاندہی کی ہے جہاں بی جے پی کا اتحادی جماعتوں کے خلاف ون ٹو ون مقابلہ ہوگا یعنی ان 400 سیٹوں پر بی جے پی یا اس کے اتحادی کے خلاف مشترکہ حزب اختلاف کا امیدوار اتارا جائے گا۔ سب کچھ ویسی ہی حکمت عملی کے تحت ہوگا جیسا اترپردیش کی کیرانہ لوک سبھا سیٹ کے ضمنی انتخاب کے دوران اپنائی گئی تھی۔

کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دراصل اس حکمت عملی پر منصوبہ بندی کے تحت کرناٹک انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے ہی بات چیت شروع ہو گئی تھی۔ اس بات چیت میں کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک کے رہنما شامل تھے۔ یعنی کشمیرکے فارق عبداللہ سے لے کر تمل ناڈو کے اسٹالن اور کیرالہ کے پی وجین اور سی پی ایم کے سیتا رام یچوری بھی شامل تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کے لئے تقریباً ہر غیر بی جے پی سیاسی پارٹی نے حامی بھری ہے اور ریاستی سطح پر آپسی نااتفاقی کو درکنار کر کے موجودہ حکمرانی کے خلاف میدان میں اترنے کی حکمت عملی تیار کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر ریاست میں سیاسی صورت حال مختلف ہے اس لئے ایک ہی فارمولہ ہر ریاست میں لاگو نہیں ہوگا لیکن مقصد صرف اور صرف این ڈی اے کی ہار کو یقینی بنانا ہے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن کے اتحاد کو پورے ملک میں اپنا کر ریاستی سطح کے اتحاد کی تجویز سی پی ایم کے رہنما سیتا رام یچوری نے پیش کی۔ ان کے اس خیال کو کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد اور جے ڈی یو کے سابق صدر شرد یادو نے سمجھا اور دیگر رہنماؤں سے بات کی گئی۔ گذشتہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی شکست فاش کو دیکھ کر اپوزیشن کے حوصلے بلند ہیں اور قومی سطح پر اسی حکمت عملی کو اختیار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اترپردیش میں مایاوتی اور اکھلیش یادو کی مشترکہ حکمت عملی کو دیگر غیر بی جے پی جماعتوں نے حمایت دی۔ اس کے بعد جو تصویر سامنے ابھر کر آئی یعنی اس سال مارچ سے اب تک ہوئے تین ضمنی انتخابات میں بی جے پی منہ کے بل گری ہے۔

اس دوران کئی بار سیٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں غیر بی جے پی جماعتوں کے آپسی تنازعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کے اکھلیش یادو نے مایاوتی کی بی ایس پی کو زیادہ سیٹیں دینے کی بات کہہ کر ان کوششوں پر پانی پھیردیا تو مدھیہ پردیش میں کانگریس کی تشہیر کاری کمیٹی کے صدر جیوترادتیہ سندھیا نے بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کے اشارے دے کر اپوزیشن کی مضبوطی میں ایک سیڑھی کو اور جوڑ دیا۔

ایک دن پہلے ہی سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بیان دیا تھا کہ ’’اگلے سال ہونے والے لوک سبھا چناؤ میں بی جے کو ہرانے کے لئے ہم کسی بھی سمجھوتے کے لئے تیار ہیں۔ ہم نے بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ اگر بی جے پی کی ہار کے لئے 2-4 سیٹوں کو قربان بھی کرنا پڑے تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘

وہیں مدھیہ پردیش میں کانگریس نے صاف کر دیا ہے کہ بی جے پی کو ہرانے کے لئے سیٹوں کا اشتراک ’رکاوٹ‘ نہیں بنے گا۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی تشہیر کاری کمیٹی کے صدر جیوترادتیہ سندھیا نے کہا، ’’بڑی بات ہے کہ ہمارے نظریات یکساں ہیں ہماری قدریں بھی ایک جیسی ہیں، لہذا سیٹوں کا اشتراک کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا۔‘‘ مدھیہ پردیش میں بی ایس پی سے اتحاد پر انہوں نے کہا کہ کسی بھی پارٹی سے اتحاد کے لئے ان کے دروازے کھلے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مشترکہ اتحاد کا آئیڈیا سب سے پہلے ممتا بنرجی نے دیا تھا۔ مارچ کے مہینے میں جب ممتا بنرجی نے دہلی آکر غیر بی جے پی جماعتوں سے بات کی تھی تو ممکنہ طور پر موضوع یہی رہا۔ اسی کے ساتھ ممتا نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اتحاد میں صوبے میں مضبوط صوبائی جماعتوں کو اہمیت دینی چاہئے، کسی ایک جماعت کو خود کو بہتر نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اتحاد کی جیت کو یقینی بنایا جائے۔

ممتا کے بیان کے بعد جو سیاسی تصویر سامنے آئی اس سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ کہیں کچھ پک رہا ہے کیوں کہ اسی دور میں جے ڈی یو کے سابق صدر شرد یادو اور ٹی آر ایس کے رہنما چندرشیکھر راؤ بھی کافی فعال تھے۔

اس طرح دیکھیں تو یہ تصویر سامنے آتی ہے:

اتر پردیش- 80 سیٹیں

یہاں مایاوتی کی بی ایس پی اور اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی مؤثر علاقائی پارٹیاں ہیں۔ گورکھپور اور پھول پور سیٹ پر دونوں جماعتیں مل کر بی جے پی کو دھول چٹا چکی ہیں۔ نئی اسکیم کے تحت کیرانہ میں دیگر غیر بی جے پی جماعتوں کے ساتھ مایاوتی اور اکھلیش کے اتحاد نے آر ایل ڈی کو حمایت دی۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی بھی اس مہم میں شامل ہو گئیں۔ اس زبردست اتحاد نے یوگی-مودی کے جادو کی ہوا نکال دی اور تبسم حسن جیت گئیں۔ اس طرح یو پی کی زیادہ تر سیٹوں پر مایاوتی اور اکھلیش کے اتحاد کو دیگر جماعتوں نے 2019 میں حمایت دینے کے منصوبہ کو فائنل کر دیا ہے۔ ہاں، کچھ سیٹیں ایسی ہوں گی جہاں لوک سبھا حلقہ سطح پر دوسری جماعتوں کا اثر ہوگا وہاں اتحاد ان جماعتوں کو حمایت دے گا۔

مغربی بنگال- 42 سیٹیں

مغربی ہندوستان کے اس صوبہ میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس کے بعد کانگریس اور بایاں محاذ ہے۔ بی جے پی بھی اپنی جڑیں جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مودی لہر میں بھی ممتا نے اپنا قلعہ بچائے رکھا۔ ظاہر ہے کہ یہاں ترنمول کانگریس ہی اپوزیشن اتحاد کی روح رواں ہوں گی اور دیگر جماعتیں سیٹوں کے حساب سے انہیں حمایت دیں گے یا لیں گے۔

راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ - 65 سیٹیں

ان تینوں صوبوں میں دو سیاسی جماعتیں ہی میدان میں ہیں۔ کچھ سیٹوں پر آزاد امیدوار یا کوئی علاقائی پارٹی وجود میں ہے لیکن اہم مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان میں ہے۔ ان صوبوں میں اقتدار کے خلاف عوام میں زبردست غصہ پایا جا رہا ہے، اس کا نمونہ حال ہی میں ضمنی انتخابات میں سبھی دیکھ چکے ہیں۔ منصوبے کے مطابق ان تینوں ریاستوں میں سیٹوں کی تقسیم کا فیصلہ اسمبلی انتخابات کے بعد دسمبر تک ہو جائے گا۔

جنوبی ہندوستان- 130 سیٹیں

تمل ناڈو- 39، کرناٹک- 28، آندھرا پردیش- 25، تلنگانہ- 17، پانڈوچیری- 1)

جنوبی ہندوستان میں کرناٹک کے علاوہ بی جے پی کا کوئی بیس نہیں ہے۔ کرناٹک میں وہ اقتدار تک نہیں پہنچ پائی۔ آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی، این ڈی اے سے دامن چھڑا چکی ہے۔ تلنگانہ میں کے سی آر پہلے ہی خار کھائے بیٹھے ہیں اور تمل ناڈو کا تازہ سروے بتاتا ہے کہ بی جے پی کی نزدیکی پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے کا صفایا ہو سکتا ہے۔ وہیں کیرالہ میں تمام کوششوں کے باوجود بی جے پی کی دال نہیں گل رہی۔ ایسے حالات میں 130 سیٹوں پر مشترکہ اتحاد کام کر رہا ہے۔ یہ وہ 130 سیٹیں ہیں جہاں مؤثر جماعتیں بی جے پی کے خلاف ہیں اور احتیاط سے بنی حکمت عملی بی جے پی کو پیر جمانے کا موقع نہیں دیں گی۔

مغربی ہندوستان- 76 سیٹیں

(مہاراشٹر- 48، گجرات- 26، گوا- 2)

مہاراشٹر میں بھنڈرا-گوندیا سیٹ کے ضمنی انتخاب میں اترپردیش جیسا تجربہ کامیاب رہا اور بی جے پی کی اتحادی شیوسینا بھی ہاتھاپائی کرتی نظر آئی ہے۔ ایسے حالات میں یہاں کانگریس-این سی پی اتحاد کو فائدہ ملے گا۔ حال ہی میں مہاراشٹر میں چھوٹی پارٹیاں بی جے پی سے ناراض ہیں اور شرد پوار جس طرح سے اتحاد کو لے کر بیان دے رہے ہیں اس سے تصویر کچھ کچھ صاف نظر آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بہار میں آر جے ڈی کے بڑھتے دبدبے اور جے ڈی یو-بی جے پی کے مابین دراڑ کی خبریں عام بات ہیں۔ حال ہی کے دنوں میں یہاں این ڈی اے کو یکے بعد دیگرے جھٹکے لگے ہیں۔ وہیں اوڈیشہ میں بی جے ڈی تمام کوششوں کے باوجود بی جے پی کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں اور بی جے پی کے خلاف عظیم اتحاد میں شامل ہونے کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور متبادل نہیں رہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔