دہلی تشدد: انتظامیہ کی عبوری رپورٹ جاری، 122 گھر اور 322 دکانیں تباہ

شمال مشرقی دہلی انتظامیہ کے ذریعہ تیار کردہ رپورٹ کے مطابق صرف گھر اور دکانیں ہی شرپسندوں کے ذریعہ تباہ نہیں کی گئیں، بلکہ 300 سے زائد گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا یا بری طرح توڑ پھوڑ دیا گیا۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

قومی آوازبیورو

دہلی تشدد میں اب تک 47 افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں آ چکی ہیں اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جعفر آباد، مصطفیٰ آباد، کھجوری، بھجن پورہ جیسے علاقوں میں رہنے والے سینکڑوں مسلم افراد یا تو کسی کیمپ میں پناہ لینے کے لیے مجبور ہو چکے ہیں یا پھر کسی دوسری ریاست کا رخت سفر باندھ لیا ہے۔ اس درمیان شمال مشرقی دہلی انتظامیہ نے تشدد پر مبنی عبوری رپورٹ تیار کر لی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تشدد میں شورش پسندوں نے 122 گھروں کو جلا کر خاک اور 322 دکانوں کو نیست و نابود کر دیا۔

گزشتہ ہفتہ شمال مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد کی تباہ ناکی کی خبریں مختلف نیوز پورٹل اور اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکی ہیں، لیکن شمال مشرقی دہلی انتظامیہ کے ذریعہ تیار کردہ رپورٹ اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ اس نے بھی تباہی کی داستان بیان کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق صرف گھر اور دکانیں ہی شرپسندوں کے ذریعہ تباہ نہیں کی گئیں، بلکہ 300 سے زائد گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا یا بری طرح توڑ پھوڑ دیا گیا۔


سینئر افسروں کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح تک ایس ڈی ایم کی قیادت میں 18 ٹیموں کی جانب سے شیئر کیے گئے اِن پٹ کی بنیاد پر شمال مشرقی دہلی میں تشدد پر مبنی یہ ڈاٹا تیار کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی ہدایات کے بعد یہ ٹیم شمال مشرقی دہلی میں تشدد متاثرہ علاقوں میں ’نقصان کا اندازہ‘ کر رہی ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رپورٹ میں جلائے گئے گھروں اور تباہ دکانوں و گاڑیوں کی جو تعداد بتائی گئی ہے، اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ تشدد کے معاملے میں اب تک 1300 لوگوں کو گرفتاری ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں پولس نے افواہ پھیلانے کے الزام میں بھی قومی راجدھانی میں 40 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ دراصل افواہ کی وجہ سے یکم مارچ کو دہلی کے کچھ علاقوں میں افرا تفری پھیل گئی تھی اور کچھ مقامات پر توڑ پھوڑ کے واقعات بھی سامنے آئے تھے۔ بہر حال پولس افسران کا کہنا ہے کہ اس وقت حالات معمول پر ہیں اور گزشتہ پانچ دنوں میں تشدد کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Mar 2020, 1:30 PM
/* */