ہندوستان میں تاریخی انقلاب کا آغاز، خاتون کو ملا ’نو کاسٹ، نو رلیجن‘ سرٹیفکیٹ

پیشے سے وکیل سنیہا نے ہمیشہ ہی ذات پات سے خود کو الگ رکھا اور کسی بھی درخواست میں ذات و مذہب کا کالم نہیں بھرا۔ ’نو کاسٹ، نو رلیجن‘ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ان کے لیے بہت بڑی حصولیابی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

تمل ناڈو کے ویلور ضلع میں رہنے والی سنیہا تین بہنیں ہیں۔ ان کی دیگر دو بہنوں کا نام ممتاز اور جینفر ہے۔ نام سے ظاہر ہے کہ تینوں بہنوں کے نام اگر ایک ساتھ لیے جائیں تو لوگوں کے لیے اندازہ لگانا مشکل ہو جائے گا کہ ان کا تعلق کس مذہب یا ذات سے ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی فیملی نے بہت پہلے سے ہی ’نو کاسٹ، نو رلیجن‘ کی مہم چلا رکھی تھی جس میں حقیقی کامیابی انھیں گزشتہ 5 فروری کو ملی جب سنیہا کو باضابطہ سرکاری سرٹیفکیٹ مل گیا۔ ’نو کاسٹ، نو رلیجن‘ سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد اب سنیہا کو سرکاری دستاویزوں میں ذات بتانے یا اس کا سرٹیفکیٹ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔

سنیہا پیشے سے ایک وکیل ہیں اور ویلور ضلع کے تیروپتّور میں پریکٹس کر رہی ہیں۔ میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ سنیہا اور ان کے والدین نے ہمیشہ ہی ذات پات سے خود کو الگ رکھا اور کسی بھی درخواست میں ذات اور مذہب کا کالم نہیں بھرا۔ کئی درخواستوں میں انھوں نے اس جگہ پر صرف ’ہندوستانی‘ لکھ دیا۔ سنیہا نے ’نیوز 18‘ کے تمل پورٹل سے انٹرویو کے دوران بتایا کہ ’’برتھ سرٹیفکیٹ سے لے کر اسکول کے سبھی سرٹیفکیٹس میں ذات اور مذہب کا کا کالم خالی ہے اور اس کی جگہ صرف ’ہندوستانی‘ لکھا ہوا ہے۔ چونکہ فارم بھرتے وقت کاسٹ سرٹیفکیٹ دینا ضروری ہوتا ہے اس لیے انھیں سیلف ایفی ڈیوٹ لگانا پڑتا تھا۔‘‘

سنیہا کہتی ہیں کہ جو لوگ ذات اور مذہب کو مانتے ہیں انھیں کاسٹ سرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے تو میرے جیسے لوگ جو کسی ذات یا مذہب کو نہیں مانتے انھیں اس کے لیے سرٹیفکیٹ کیوں نہیں دیا جا سکتا۔ اسی بات پر دھیان رکھتے ہوئے انھوں نے 2010 میں ’نو کاسٹ، نو رلیجن‘ سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دی تھی لیکن کافی جدوجہد کے بعد انھیں فروری 2019 میں کامیابی ہاتھ لگی۔ ذرائع کے مطابق ان کی درخواست پر سرکاری افسران نے ٹال مٹول والا رویہ اختیار کر رکھا تھا لیکن 2017 میں سنیہا نے افسران کے سامنے حاضر ہو کر اپنی بات رکھنی شروع کر دی۔ سنیہا کے مطابق تیروپتّور کی سب کلیکٹر بی پرینکا پنکجم نے سب سے پہلے اس درخواست کو ہری جھنڈی دی اور ان کے اسکول کے سبھی دستاویزات کھنگالے گئے جن میں ذات اور مذہب کا کالم خالی ہی نظر آیا۔ مکمل تحقیق کے بعد ہی سنیہا کو ’نو کاسٹ، نو رلیجن‘ سرٹیفکیٹ مل سکا۔

ہندوستان میں نئے سماجی انقلاب کی بنیاد رکھنے والی سنیہا کو تیروپتّور ضلع کے تحصیلدار ٹی ایس ستیہ مورتی نے سرٹیفکیٹ 5 فروری کو سونپا۔ وہاں کے افسران اس پورے معاملے کو تاریخی قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل انھوں نے اس طرح کا کوئی بھی سرٹیفکیٹ نہیں بنایا تھا۔ سنیہا کو سرٹیفکیٹ ملنا ایسے لوگوں کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے جو ذات پات سے ہٹ کر خود کو صرف ’ہندوستانی‘ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہے۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ سنیہا نے اپنے بچوں کا نام بھی ایسا رکھا ہے جس سے ہندوستانی کلچر کی زبردست نمائندگی ہوتی ہے اور ذات و مذہب کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ انھوں نے اپنی بیٹیوں کے جو نام رکھے ہیں اس کا پہلا حصہ الگ مذہب کو ظاہر کرتا ہے اور دوسرا حصہ کسی دیگر مذہب کو ظاہر کرتا ہے۔ گویا کہ یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ سنیہا کے شوہر کا نام پرتبھا راجہ ہے جو کہ تمل پروفیسر ہیں۔ دونوں نے مل کر اپنی بیٹیوں کے نام کچھ اس طرح رکھے ہیں... ادھیرئی نسرین، ادھیلا ایرین، عارفہ جیسی۔

سنیہا کو ملی کامیابی کی خبر جن لوگوں کو بھی مل رہی ہے، وہ حیران ہیں اور تعریف کیے بغیر نہیں رہ پا رہے ہیں۔ اس کی عمدہ مثال مشہور و معروف اداکار کمل ہاسن ہیں جنھوں نے سنیہا کو مبارکباد پر مبنی ٹوئٹ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں نیوز 18 تمل کی خبر کو ٹیگ کیا ہے اور ان کے ذریعہ اٹھائے گئے قدم کی تعریف کرتے ہوئے بہتر مستقبل کی امیدیں بھی وابستہ کی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Feb 2019, 9:10 PM