سہارنپور:سیاسی صف بندی دے رہی ہے تبدیلی کا اشارہ

علاقہ کے مسلمانوں کے رخ پر جہاں دارالعلوم دیو بند کا اثر رہتا ہے وہیں وہ بی جے پی کو شکست دینے کے لئے جیتنے والے امیدوار کے حق میں رائے دیتے ہیں۔

فائل تصویر
فائل تصویر
user

یو این آئی

اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کے ایام جیسے جیسے قریب آرہے ہیں ویسے ویسے ریاست میں نئی سیاسی صف بندی کے درمیان مغربی علاقے میں ضلع سہانرنپور میں تبدیلی کی ہوا کے جھونکے دستک دیتے دکھ رہے ہیں۔

ریاست کی اسمبلی سیٹوں کے ضمن میں پہلی سات سیٹوں والے ضلع سہارنپور میں تقریبا 40فیصدی مسلم اور 22فیصدی ایس سی سماج کی آبادی ہونے کا اندازہ ہے۔ اس زراعت پر مبنی ضلع میں سال 2022 کے اسمبلی انتخابات کئی وجوہات سے اہم ہوگئے ہیں۔


ہریانہ اور اتراکھنڈ کی سرحدیں اس ضلع سے ملتی ہیں۔ انتخابی ماہرین کی رائے میں مسلمانوں کا رخ کافی حد تک اسلامی تعلمی ادارے دارالعلوم دیوبند پر انحصار کرتا ہے۔ دارالعلوم کی انتظامی کمیٹی میں رہے مولان اسد مدنی تین بار کانگریس سے اور ان کے بیٹے محمود مدنی ایک بار ایس پی۔ آر ایل ڈی کی جانب سے راجیہ سبھا کے رکن رہ چکے ہیں۔ گنگوہ کے قاضی رشید مسعود مرکزی وزیر اور کئی بار لوک سبھا و راجیہ سبھا کے رکن رہے ہیں۔ عمران مسعود انہیں کے بھتیجے ہیں۔

سہارنپور سیٹ سے بی جے پی بھی تین بار جیت درج کرچکی ہے۔ مرحوم چودھری نکلی سنگھ نے تو بی ایس پی سپریمو کانشی رام اور رشید مسعود دونوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2019 کے انتخابات میں جب ملک میں مودی کی لہر چل رہی تھی تو بی جے پی امیدوار راگھو لکھن پال کو بی ایس پی کے فضل الرحمان قریشی نے ہرا دیا تھا۔ سال 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے چار گنگوہ، نکڑ، دیوبند اور رامپور منہاران(ریزرو)اور کانگریس نے بیہٹ اور سہارنپور دیہات ار ایس پی نے سہارنپور مہا نگر سیٹ پر جیت درج کی تھi۔اس وقت ایس پی اور کانگریس کا اتحاد تھا۔


تاہم اس بار ضلع میں جو سیاسی صف بندی جاری ہے وہ اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہے کہ بر سر اقتدار جماعت کو نقصان ہو سکتا ہے ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔