پیغمبر محمدؐ پر تبصرہ: مایوسی میں غرق ہو رہا سہارنپور کا مسلم سماج، قصوروار ہیں چند لیکن سزا مل رہی سبھی کو!

بی جے پی لیڈر نوپور شرما کے ذریعہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے گئے تبصرہ کو لے کر سہارنپور میں بھی خوب احتجاجی مظاہرے ہوئے، سہارنپور میں ہوئے ہنگامہ کے بعد سبھی مسلم لیڈروں کی قلعی کھل گئی ہے

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

اتر پردیش میں مسلم سماج کو معاشی، سماجی اور سیاسی طور سے سب سے مضبوط سہارنپور میں سمجھا جاتا ہے، لیکن یہاں حالات ایسے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں میں گہری مایوسی پیدا ہو چکی ہے۔ یہاں جمعہ کو بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کی گرفتاری کے مطالبہ کے بعد ہوئے احتجاجی مظاہروں کے بعد پیدا ہنگامہ اور اس کے بعد کی پولیس کارروائی نے مسلم سماج کو ذہنی طور پر توڑ کر رکھ دیا ہے۔ سہارنپور میں 38 فیصد مسلم آبادی ہے جسے مذہبی، سماجی، معاشی اور سیاسی نظریے سے دیکھیں تو کافی مضبوط سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس مضبوط سماج کی ہمت ٹوٹ گئی ہے۔ وہ گہری مایوسی میں ہے۔

جمعہ کو سہارنپور میں ہوئے ہنگامہ کے بعد سبھی مسلم لیڈروں کی قلعی کھل گئی ہے۔ پرتشدد بھیڑ کا سڑکوں پر آنا ہی سب سے خطرناک ثابت ہوا ہے۔ جمعہ کی نماز کے بعد بھیڑ گھنٹہ گھر مارگ اور نہرو مارکیٹ سے گزری اور یہی سب سے خطرناک رہا۔ مقامی انتظامیہ اور ماہرین مانتے ہیں کہ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بھیڑ میں شامل شرارتی عناصر نے نہرو مارکیٹ میں توڑ پھوڑ کرنے کی کوشش کی، وہاں سڑک کنارے کھڑی ہوئی بائک نیچے گرا دی اور دکانوں میں گھسنے کی کوشش کی۔ پولیس نے جب ان پر لاٹھیاں چلانی شروع کی تو پتھراؤ کیا جانے لگا۔ نہرو مارکیٹ میں درزی کی دکان چلانے والے اقبال احمد بتاتے ہیں کہ جس طرح سے بھیڑ میں شامل نوجوان ہنگامہ کر رہے تھے، توڑ پھوڑ کر رہے تھے وہ کہیں سے مسلمان نہیں لگ رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ صرف فساد کرنے ہی آئے ہیں۔ پولیس انتظامیہ ایک خاص پہچان والے نوجوانوں کو ٹریس کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔


سہارنپور پولیس نے اب تک 84 مبینہ شرپسندوں کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان سبھی کو ویڈیوگرافی کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ ان میں ایک درجن سے زیادہ ایسے نوجوان شامل ہیں جو پڑھائی کر رہے ہیں اور ان کے کنبہ والے مانتے ہیں کہ ان کی گرفتاری غلط طریقے سے کی گئی ہے۔ گزشتہ 48 گھنٹوں میں سہارنپور میں مسلم سماج بہت زیادہ تناؤ سے گزر رہا ہے۔ ہر ایک نوجوان کو لگتا ہے کہ اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ تمام مسلمانوں کو لگتا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ سہارنپور کی مذہبی اور سیاسی قیادت پوری طرح سے ناکام ہو چکی ہے۔ وہ نہ ہی جمعہ کی نماز پڑھ کر نکل رہی بھیڑ بازار کی سڑکوں پر نکلنے سے روک پائی اور نہ ہی اب بے گناہوں کو گرفتاری سے بچا پا رہی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ مسلمانوں کے عوامی نمائندوں میں بھی آواز اٹھانے کی ہمت نہیں دکھائی دیتی ہے۔

اس ضلع میں رکن پارلیمنٹ اور تین اراکین اسمبلی مسلمان ہیں۔ ان میں سے ایک آشو ملک ہیں، دوسرے عمر علی خان ہیں جو کہ دہلی شاہی جامع مسجد کے امام احمد بخاری کے داماد ہیں اور تیسرے قانون ساز کونسل رکن شاہنواز خان ہیں جو حال ہی میں منتخب ہوئے ہیں۔ حاجی فضل الرحمن سہارنپور سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ کئی دہائیوں تک یہاں کی سیاست کا بڑا چہرہ رہا مسعود کنبہ اب سیاسی نمائندگی کے طور پر تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اب مسعود فیملی میں واحد سیاسی سرگرمی یہ ہے کہ نعمان مسعود کی بیوی شاذیہ مسعود گنگوہ میونسپل کارپوریشن رکن ہیں۔ سہارنپور میں حراست میں لیے ایک ہی سماج کے لوگوں کے ساتھ پولیس کے ذریعہ کی گئی مار پیٹ کی ویڈیو نے بے حد منفی پیغام دیا ہے۔ رامپور کے باشندہ دانش خان کی شکایت پر اسے حقوق انسانی کمیشن میں درج کیا جا چکا ہے۔


جمعہ کو جو کچھ بھی سہارنپور میں ہوا وہ دراصل صرف جمعہ کو نہیں ہوا، اس کی بنیاد الوداع جمعہ کو کرھی گئی تھی۔ سہارنپور ایک مذہبی شہر ہے، اور مذہبی طور پر کافی حساس ہے۔ یہ اسلامی تعلیم کا بڑا مرکز ہے۔ دیوبند دارالعلوم اور مظاہر العلوم جیسے بڑے مدرسے یہاں واقع ہیں جن میں 50 ہزار سے زیادہ طالب علم پڑھ رہے ہیں۔ سہارنپور کو شیخ شاہ ہارون چشتی کا بسایا ہوا شہر مانا جاتا ہے۔ جمعہ کے دن سہارنپور میں عید جیسا ماحول ہوتا ہے۔ اس مسلم طبقہ کے بیشتر لوگ کام پر نہیں جاتے اور صبح سے نماز کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ ناقابل یقین لگے گا مگر رمضان کے مہینے میں جمعہ کی ایک بجے ہونے والی نماز میں شامل ہونے کے لیے جگہ حاصل کرنے کی کوشش صبح 9 بجے سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ یعنی جامع مسجد میں نمازی صبح 9 بجے سے ہی پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس بار جمعہ کی نماز میں جامع مسجد میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں نمازی واپس لوٹ گئے۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ وہ جگہ کم ہونے کی وجہ سے باہر کھڑے رہے اور پولیس نے سڑک پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ ابھی اس بات کو صرف ڈیڑھ مہینہ ہی ہوا ہے۔ اسی طرح اذان کے لیے لاؤڈاسپیکر کا اترنا بھی اچھا نہیں لگا۔ جامع مسجد کے پڑوسی بتاتے ہیں کہ اذان کی آواز سے انھیں ایک روحانی سکون ملتا تھا، اب اذان کی آواز دھیمی آتی ہے اور وہ گھڑی کے ٹائم کے حساب سے نماز پڑھنے جاتے ہیں۔

سہارنپور کے محسن احمد بتاتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے پیغمبر محمدؐ کی شان میں گستاخی کرنے والی نوپور شرما کی گرفتاری نہ ہونے سے سماج میں پیدا ہوئی مایوسی نے غلط رخ اختیار کر لیا۔ ہمیں اپنے اکابرین کی بات کو ماننی چاہیے تھی اور سڑک پر اترنے سے پرہیز کرنا چاہیے تھا۔ حالانکہ ناراضگی سمجھ میں آتی ہے اور لوگ اکٹھا بھی ہو رہے تھے، لیکن انتظامیہ کو اپنی بات کرنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ اب بہت زیادہ مایوسی کا ماحول ہے اور سماج کو لگتا ہے کہ ان کی سماعت ہی نہیں ہو رہی ہے۔ ایک طبقہ حکومت میں اپنا اعتماد کھو چکا ہے۔ اب قصوروار لوگ چند ہیں، لیکن انجام سبھی بھگت رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بات کو انتظامیہ نے سمجھ بھی لیا ہے۔


سہارنپور کے ایس ایس پی آکاش تومر نے سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والے 16 لوگوں کی گرفتاری کی بات کہی ہے۔ اس کی جانکاری دیتے ہوئے انھوں نے بتایا ک اب تک جمعہ کو ہوئے ہنگامہ میں 84 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے اہم قصورواروں کے خلاف این ایس اے لگانے کی بھی تیاری ہو رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔