اتر پردیش کے ضلع سہارنپور میں مسلم لیڈرشپ ناکام

عمران مسعود کے قریبوں کی جہاں شکست ہوئی، وہیں حاجی فضل الرحمن کی پارٹی پوری طرح ناکام ثابت ہو کر رہ گئی۔

سہارنپور کے فتحیاب امیدوار
سہارنپور کے فتحیاب امیدوار
user

عارف عثمانی

دیوبند: اترپردیش کی سیاست میں ایک مرتبہ پھر بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ سہارنپور سے بھلے ہی دونوں مسلم امیدوار جیت گئے ہوں لیکن مسلم لیڈرشپ ناکام ہو گئی ہے۔ عمران مسعود کے قریبوں کی جہاں ہار ہوئی وہیں رکن پارلیمنٹ حاجی فضل الرحمن کی پارٹی پوری طرح ناکام ثابت ہو کر رہ گئی۔ الیکشن سے قبل سہارنپور کی تمام ساتوں سیٹوں کو لے کر کافی چرچہ تھی۔ سماجوادی پارٹی کے ٹکٹوں کو لے کر یہاں کافی دوڑ دھوپ ہوئی۔ کانگریس چھوڑ کر سماجوادی پارٹی کا دامن تھامنے والے عمران مسعود کے ساتھ بھلے ہی ان کے ووٹرس کھڑے رہے، لیکن اس بار وہ سماجوادی پارٹی کی نیاّ پار لگانے میں ناکام ہو گئے۔ سہارنپور دیہات اور بیہٹ دونوں سیٹیں2017ء میں سماجوادی پارٹی کے اتحاد کے ساتھ کانگریس نے جیتی تھیں اور اس وقت اس کی قیادت عمران مسعود کر رہے تھے، لیکن وہ اپنا الیکشن ہار گئے تھے۔

مسلسل چار الیکشن ہارنے والے عمران مسعود نے اس مرتبہ الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا۔ وہ کانگریس چھوڑ کر سماجوادی پارٹی میں آئے تھے، سہارنپور دیہات اور بیہٹ کے امیدواروں سے الیکشن میں ان کی قابل ذکر قربتیں نہیں رہیں بلکہ ان کا زیادہ فوکس نکوڑ، سہارنپور شہر، رامپور منیہاران اور دیوبند میں تھا۔ جبکہ گنگوہ سے بی ایس پی کے ٹکٹ پر ان کے بھائی الیکشن لڑ رہے تھے۔ لیکن ان تمام سیٹوں پر سماجوادی پارٹی کو ناکامی ہاتھ آئی ہے۔


دیوبند سے کارتکیہ رانا کے ٹکٹ میں بھی ان کا اہم رول بتایا گیا تھا۔ عمران مسعود کی سماجوادی پارٹی میں انٹری کو لے کر بھی کافی ڈرامہ چلا تھا، جس کے بعد دعویٰ کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر دھرم سنگھ سینی، سنجے گرگ اور چودھری رودسین کی کوششوں سے دوبارہ ان کی پارٹی میں واپسی ہوئی۔ لیکن یہ تینوں سیٹیں سماجوادی پارٹی ہار گئی۔

سماجوادی پارٹی نے عمران مسعود کے قریبی وویک کانت کو رامپور منیہاران سے آر ایل ڈی کے نشان پر امیدوار بنایا تھا، لیکن وہ تیسرے نمبر پر رہ گئے۔ اس کے بعد عمران مسعود بھی فکرمندی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ عمران مسعود ضلع کے قدآور لیڈر سمجھے جاتے ہیں اور انہیں ووٹ بینک والا نیتا بھی کہا جاتا ہے، لیکن ان کے آنے سے سماجوادی پارٹی بھلے ہی دوسیٹیں جیت گئی ہو، اپنی شہر سیٹ وہ اس بار ہار گئی اور یہاں سے بی جے پی کی چار سے پانچ سیٹیں ہو گئی ہیں۔


لوک سبھا الیکشن کی تیاری کر رہے عمران مسعود کو اب ایک مرتبہ پھر اپنی اسٹریٹجی بنانی ہوگی۔ وہیں رکن پارلیمنٹ حاجی فضل الرحمن کی ایک مرتبہ پھر لوک سبھا کی تیاریوں کو زوردار جھٹکا لگا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ ان کی پارٹی بی ایس پی ضلع میں پوری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ شہر سہارنپور کی سیٹ پر تو محض آٹھ ہزار ووٹ سے بی ایس پی کو اکتفا کرنا پڑا ہے۔ ضلع کے ووٹروں کو بی ایس پی کے قریب کرنے میں حاجی فضل الرحمن پوری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ جہاں مایاوتی کی سیاسی پینترے بازی کے سبب مسلم ووٹ بی ایس پی سے دور ہو گیا ہے وہیں اس کا اپنا بنیادی ووٹ سمجھا جانے والا دلت بھی اس سے دور ہونے لگا ہے۔

سہارنپور دو دہائیوں تک مایاوتی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن 2017ء اور 2022 کے الیکشن نے یہاں مایاوتی کا پوری طرح صفایا کر دیا۔ حالانکہ 2019ء میں لوک سبھا الیکشن میں حاجی فضل الرحمن کو کامیابی ضرور ملی تھی لیکن اگلی مرتبہ ان کی راہ آسان نہیں ہے۔ اس بات کو حاجی فضل الرحمن بھی اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔ بہرحال، ضلع کے دونوں بڑے مسلم لیڈران آئندہ 2024 کے لوک سبھا الیکشن کی تیاریاں ضرور کر رہے ہیں لیکن انہیں بھی معلوم ہے بدلتے ہوئے حالات میں یہ راہ بھی آسان ہونے والی نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔