مراد آباد: ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ عوام کس کے حق میں فیصلہ دے گی

سبھی پارٹیوں کے امیدواروں نے عوام کو خواب دکھانے شروع کر دئے ہیں اور عوام کے بھٹکے ہوئے اس ذہن کی وجہ سے ابھی یہ کہنا نا ممکن ہے کہ عوام کس کے حق میں فیصلہ دے گی

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

ناظمہ فہیم

مرادآباد: انتخابی میدان میں اترے سبھی امیدوار اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے جہاں عوام سے بے شمار وعدے کر رہے ہیں وہیں ایک دوسرے پر تنقید کرنے میں بھی نہیں چوک رہے ہیں۔ دوسرے مر حلے کی ووٹنگ کی تاریخ جیسے جیسے نزدیک آ رہی ہے عوام بھی اس انتخابی مہم پر گہری نظر رکھ رہی ہے۔

سبھی پارٹیوں کے امیدواروں نے عوام کو ایسے خواب دکھانے شروع کر دئے ہیں جس سے کہ عوام پش و پیش میں ہے کہ وہ آخر کس کا یقین کرے او کس طرف جائیں۔ عوام کے بھٹکے ہوئے اس ذہن کی وجہ سے ابھی یہ کہنا نا ممکن ہے کہ عوام کس کے حق میں فیصلہ دے گی۔ مرادآباد کی تمام سیٹوں پر کس کو جیت حاصل ہوگی یہ کہنا ابھی جلد بازی ہے۔ مرادآباد کی چھ سیٹوں میں سے 4 پر سماج وادی پارٹی کا قبضہ ہے جبکہ 2 سیٹوں پر بی جے پی قابض ہے۔ اس لحاظ سے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں بی جے پی اور سماج وادی پارٹی ہی عوام کی پہلی پسند ہو سکتی ہیں مگر کانگریس کی اہم لیڈر پرینکا گاندھی کے ہاتھ میں صوبے کی کمان آنے کے بعد اور مرادآباد میں ان کی ریلی سے کانگریس کی جانب بھی یہاں کے ووٹروں کی نگاہیں ہیں۔


بی ایس پی بھی اپنی پوری طاقت جھونک رہی ہے۔ سماج وادی پارٹی نے سبھی سیٹوں پر مسلم امید وار اتارے ہیں، بی ایس پی نے بھی مسلم چہروں پر ہی داؤ لگایا ہے۔ کانگریس نے 6 میں سے 5 امید وار مسلم اتارے ہیں جبکہ ایک سیٹ پر غیر مسلم کو ٹکٹ دیا ہے۔ اسد الدین اویسی کی ایم آئی ایم نے بھی 6 میں سے پانچ سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے ہیں اور وہ سب کے سب مسلم چہرے ہیں۔

ان حالات میں مرادآباد کا مسلم ووٹر الجھا ہوا ہے کہ وہ کس کے ساتھ جائے، ایک ہی سیٹ پر بیشتر پارٹیوں کے مسلم چہرے ہونے کی وجہ سے ووٹ کا بٹوارا نہ ہو جائے اس کو لے کر بھی یہاں کا مسلم ووٹر فکر مند ہے۔ بی جے پی کے لئے یہ خوشی کی بات ضرور ہے کہ اس ضلع کا مسلم ووٹر ذہنی طور پر منتشر ہے حالانکہ مسلم طبقہ کے ذی شعور افراد لگاتار یہ مہم چلا رہے ہیں کہ ووٹ کو باٹنا نہیں ہے بلکہ اس امید وار کو ایک مشت ووٹ دینا ہے جو جیت رہا ہو۔ ان ذی شعور افراد نے بھی واضح طور پر کسی ایک پارٹی کا نام نہیں لیا ہے۔


مرادآباد شہر، مرادآباد دیہات و کندرکی اسمبلی حلقوں میں اس بار انتخابات دلچسپ ہونے جا رہے ہیں کیونکہ کندرکی میں سماج وادی پارٹی نے موجودہ ایم ایل اے حاجی رضوان کا ٹکٹ کاٹ کر انہیں ناراض کر دیا ہے اور وہ بہوجن سماج پارٹی سے انتخابی میدان میں ہیں، کانگریس نے بھی یہاں ایک مسلم چہرے پر ہی داؤ لگایا ہے۔

سماج وادی پارٹی نے اس علاقے کے قدآور لیڈر، پڑوس کے ضلع سنبھل سے موجودہ پارلیمانی ممبر ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کے پوتے ضیا الرحمن پر بھروسہ جتایا ہے۔ اس لحاظ سے اس سیٹ پر سہ رخی مقابلہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کا فائدہ کس پارٹی کے امیدوار کو ہوگا یہ علاقے کی عوام حق رائے دہی کے دن طے کرے گی۔ شہر اسمبلی سیٹ جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد کم ہے وہاں پر بھی سماج وادی پارٹی، کانگریس، بی ایس پی اور ایم آئی ایم چاروں پارٹیوں نے مسلم امیدوار اتارے ہیں جبکہ یہاں موجودہ اسمبلی ممبر بی جے پی کا ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس سیٹ پر کسی بھی امیدوار کی راہ آسان نہیں ہوگی۔


دیہات اسمبلی سیٹ پر مسلم ووٹروں کی تعداد خاصی ہے مگر اس سیٹ پر بھی سماج وادی پارٹی نے اپنے مو جودہ اسمبلی رکن حاجی اکرام قریشی کا ٹکٹ کاٹ دیا وہ بھی کانگریس کا ٹکٹ لے کر انتخابی میدان میں اتر ے ہیں اور سماج وادی پارٹی کو جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ سماج وادی پارٹی نے حاجی ناصر قریشی کو ٹکٹ دیا ہے جب کہ بی ایس پی اور ایم آئی ایم نے بھی مسلم امید وار اس علاقے کو دئے ہیں۔ یہاں بی جے پی نے کے کے مشرا کو اتارا ہے۔

عوامی سطح پرکہیں یہ بحث چل رہی ہے کہ سماج وادی پارٹی کی لہر ہے تو کہیں کانگریس کا ذکر ہو رہا ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صاف ستھری شبیہ و ایماندار امید وار کو ہی ووٹ دینا چاہئے۔ ایسے میں ابھی تک یہ کہنا مشکل ہو رہا ہے کہ عوام کس طرف جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔